ماہنامہ انوار مدینہ لاہور فروری 2015 |
اكستان |
|
ہاتھ روک رہا تھا تو اُس کی طرف بڑھ کر اُس کو قتل کر ڈالتا۔ صحابہ نے عرض کیا یا رسول اللہ ۖ ہم نہیں سمجھ پائے تھے کہ آپ کے جی میں کیا ہے آپ نے ہمیں اپنی آنکھ سے اِشارہ کیوں نہ کردیا ؟ فرمایا ،نبی کے مناسب نہیں کہ وہ آنکھ کے نازیبا اِشاروں سے کام لے۔( اَبوداود ج ٢ ص ٥٩٩ ) اِس حدیث سے معلوم ہوا کہ نبی کو اَذیت دینے والے کو قتل کرنے کے لیے پیشگی اِجازت کی ضرورت نہیں ہوتی ٭ اِسی صفحہ پر ایک دُوسری حدیث میں حضرت اِبن عباس رضی اللہ عنہ روایت فرماتے ہیں کہ ایک نابینا صحابی کی باندی نبی علیہ السلام کو برا کہتی تھی اور آپ پر اِلزام دھرتی تھی اُنہوںنے اِس کو روکا وہ نہ رُکی اور ڈانٹ ڈپٹ کی تو کوئی اَثر نہ لیا ،اُنہوںنے کہا کہ ایک رات کو اُس نے آپ کی شان میں گالیاں اور اِلزامات دھرنے شروع کیے ،اُنہوں نے کدال لے کر اُس کے پیٹ پر رکھ کر اُس پر اپنا بوجھ ڈال دیا اور اُس کو قتل کردیا اُس کی ٹانگوں کے درمیان بچہ تھا جو خون میں لت پت تھا جب صبح ہوئی تو رسو ل اللہ ۖ کو یہ واقعہ بیان کیا گیاتو آپ نے فرمایا ،میں (اِس مجمع میں) اِس آدمی کوقسم دے کر کہتاہوں جس نے یہ کام کیا کہ اگر اِس پر میرا کچھ بھی حق ہے تووہ کھڑا ہوجائے (اپنے کو پیش کرے) وہ نابینا کھڑے ہوئے لوگوں کو پھلانگتے ہوئے خوف سے لرز رہے تھے حتی کہ نبی علیہ السلام کے سامنے آکر بیٹھ گئے اور کہنے لگے یا رسول اللہ ۖ میں ہوں وہ، وہ آپ کو گالیاں دیتی تھی اِلزام دھرتی تھی میں نے منع کیا تو نہ رُکی، ڈانٹا توکچھ اَثر نہ لیا میرے اِس سے دوموتی جیسے لڑکے ہیں میری (اچھی مہربان) رفیقہ تھی گزشتہ شام ہوئی تو آپ کو گالیاں دینی شروع کردیں اور اِلزام دھرنے لگی میں نے کدال لے کر اُس کے پیٹ پر رکھا اور اُس پر بوجھ ڈال دیا حتی کہ اُس کو قتل کردیا۔ نبی علیہ السلام نے اِرشاد فرمایا سب جان لو میں گواہی دیتا ہوں کہ اُس (مقتولہ) کاخون بے قیمت ہے (یہ اِسی سزا کی مستحق تھی)۔ (اَبوداود ج ٢ ص ٥٩٩ ) ٭ حضرت علی کرم اللہ وجہہ روایت فرماتے ہیں کہ ایک یہودن نبی علیہ السلام کو گالیاں دیتی اور اِلزام دھرا کرتی تھی، ایک آدمی نے اُس کا گلا دبا کر مار ڈالا ،نبی علیہ السلام نے اُس کا خون باطل (و بے قیمت ) قرار دیا۔ (اَیضاً ج ٢ ص ٦٠٠ )