ماہنامہ انوار مدینہ لاہور فروری 2015 |
اكستان |
|
اور اُن میں صحبت نہ کریں۔ (ج) اور طلاقِ بدعت کا مفہوم یہ ہے کہ ایک طہر میں بیک وقت یا جداگانہ ایک سے زائد طلاقیں دی جائیں یا حالت ِحیض میں ایک طلاق دیں۔ (دُرمختار ٣/ ٢٣٢ - ٢٣٣) آنحضرت ۖ کے زمانہ میں حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے حالت ِحیض میں اپنی اہلیہ کو ایک طلاقِ رجعی دے دی تھی جب آنحضرت ۖ کو اِس کا علم ہو اتو آپ ۖنے اِنہیں رُجوع کرنے کا حکم دیا اور اِرشاد فرمایا کہ ''اِس سے رُجوع کرلو پھر اپنے پاس رکھو تا آنکہ وہ پاک ہو جائے پھر حیض آئے اور پھر پاک ہوجائے تو اَب اگر ضرورت سمجھو تو جماع کرنے سے قبل حالت ِطہر میں اُس کوطلاق دے دو، یہی وہ وقت ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے آیت ( فَطَلِّقُوْھُنَّ لِعِدَّتِھِنَّ ) کے ذریعہ عورتوں کو طلاق دینے کا حکم فرمایا ہے۔(مشکوة شریف ٢ /٢٨٣) اِس واقعہ سے معلوم ہوگیا کہ حالت ِحیض میں طلاق دینا اگر چہ نافذ ہے (ورنہ رُجوع کے حکم کا کوئی مطلب نہ ہوگا) مگر یہ عمل قرآنِ کریم کے حکم کے خلاف ہے اور صحیح طریقہ وہی ہے جو آنحضرت ۖنے حضرت اِبن عمررضی اللہ عنہ کو تلقین فرمایا۔ کچھ غلط فہمیاں : طلاق کے بارے میں عوام میں ایسے غلط مسائل رائج ہوگئے ہیں جن کا شریعت سے کوئی تعلق نہیں ہے مثلاً : (١) بعض لوگ سمجھتے ہیں عورت سامنے موجود نہ ہو تو طلاق نہیں پڑتی، حالانکہ طلاق کے وقوع کے لیے ایسی کوئی شرط نہیں ہے بلکہ شوہر کی زبان سے الفاظِ طلاق کا نکلنا ہی موجب ِطلاق ہے، خواہ کوئی سامنے موجود ہو یا نہ ہو۔ (٢) بعض جگہ یہ رواج ہے کہ حالت ِحمل میں طلاق کو واقع نہیں سمجھا جاتا جبکہ حمل کی حالت میں طلاق کے نفاذ کا حکم شریعت میں مقرر و مؤکد ہے۔ (٣) بعض جاہل مرد یہ سمجھتے ہیں کہ جب تک تین مرتبہ طلاق کا لفظ نہ بولا جائے طلاق ہی