ماہنامہ انوار مدینہ لاہور فروری 2015 |
اكستان |
|
حرام ہے۔'' (مشکوة شریف ٢/٢٨٣) اِس سے معلوم ہوا کہ طلاق کو اُسی وقت زبان پر لانا چاہیے جبکہ معروف طریقہ پر معاشرت کے تمام راستے بند ہوجائیں اور نبھاؤ کی کوئی صورت باقی نہ رہے اور پوری کوشش کرنی چاہیے کہ صلح اور اِتفاق کی شکل نکلے اور طلاق نہ دینی پڑے۔ اور جب طلاق دینے کی نوبت آئے تو خوب سوچ سمجھ کر طلاق دی جائے تاکہ بعدمیں ندامت نہ ہو۔ اِس لیے کہ شریعت کی نظر میں طلاق اُن اَشیاء میں ہے جو مذاق میں بھی حقیقت پر محمول ہوتی ہے اور بہر حال اُس کا وقوع ہو جاتاہے۔ طلاق دینے کا شرعی طریقہ : فقہائِ اُمت نے قرآن و حدیث کی روشنی میں طلاق کی الگ الگ قسمیں اور اَحکامات بیان فرمائے ہیں مثلاً کس طرح کی طلاق کے بعد عورت سے رُجوع کا حق رہتا ہے اور کون سی طلاق بائنہ یا مغلظہ کہلاتی ہے وغیرہ وغیرہ۔ ایسے واقعات اگر پیش آئیں تو اُن کی تفصیلی نوعیت لکھ کر کسی معتبر عالم سے حکم معلوم کرنا چاہیے، یہاں تو یہ جان لیںکہ طلاق دینے کا صحیح طریقہ کیا ہے ؟ اِس سلسلہ میں فقہا ء نے یہ تفصیل کی ہے کہ طلاق کے تین مراتب ہیں : ٭ طلاقِ اَحسن ( سب سے اچھی طلاق) ٭ طلاقِ حسن (اچھی طلاق) ٭ طلاقِ بدعی (ممنوع طلاق) اِس میں سے اَوّل الذکر دو طرح کی طلاق دینا بالترتیب جائز ہے جبکہ تیسری قسم کا اِرتکاب گناہ اور بدعت ہے۔ (١لف) طلاقِ اَحسن کا مطلب یہ ہے کہ عورت کو ایسی پاکی کی حالت میں صرف ایک طلاق رجعی دے کر چھوڑ دینا جس میں عورت سے صحبت نہ کی ہو۔ ( دُرمختار ٣ /٢٣١) اِسی طرح حاملہ عورت کو ایک طلاق دینا بھی طلاقِ اَحسن میں شامل ہے۔ ( عالمگیری ١/ ٣٤٨) (ب) طلاقِ حسن کا طریقہ یہ ہے کہ تین طلاقیں الگ الگ تین ''طہروں'' میں دی جائیں