ماہنامہ انوار مدینہ لاہور فروری 2015 |
اكستان |
|
واقع نہیں ہوتی، حالانکہ شریعت کی نظر میں ایک اور دو طلاق بھی واقع ہوجاتی ہیں بلکہ ضرورت کے وقت ایک ہی طلاق دینا مشروع ہے۔ آج کل ہمارے معاشرہ میں طلاق کے ذریعہ کھڑی ہونے والی مشکلات کی بنیاد یہی خرابی ہے کہ تین سے کم طلاق ہی نہیں سمجھا جاتا، واقعہ یہ ہے کہ اگر یہ رواج ختم ہوجائے اور بوقت ِضرورت صرف ایک طلاق کاا ِستعمال ہو تو بیشتر نزاعات ویسے ہی ختم ہو جائیں۔ (٤) اور ایک بڑی ''غلط فہمی'' اِس زمانہ میں یہ پھیلائی جاتی ہے کہ ایک مجلس کی تین طلاقیں ایک طلاقِ رجعی کے حکم میں ہوتی ہیںجبکہ یہ نظریہ نا صرف نصوصِ صریحہ بلکہ عقل کے بھی خلاف ہے اور حرام کاری کا دروازہ کھولنے کا ذریعہ ہے۔ ائمہ اَربعہ اور علمائِ محققین میں سے کوئی بھی اِس کاقائل نہیں ہے۔ فتح القدیر میں لکھا ہے کہ اگر کوئی قاضی تین طلاق کے ایک ہونے کا فیصلہ کرے تو اُس کا فیصلہ نافذ نہ مانا جائے گا بلکہ رَد کردیا جائے گا۔ اَلغرض طلاق سہ گانہ کے متعلق اِجماع اُمت کے خلاف کسی بھی فتویٰ پر عمل کرنا کسی مسلمان کے لیے جائز نہیں ہے۔ آخری بات : یہ ہے اِسلامی نظام معاشرت اور اَزدواجی زندگی کے اُصول وضوابط کا ایک مختصر جائزہ۔ ضرورت ہے کہ اِسے ہم اپنے معاشرہ میں داخل کریں اور پوری کوشش کریں کہ ہم سے کسی غیر شرعی حرکت کا صدور نہ ہوسکے، اِس وقت ہمارے لیے اپنے دینی مذہبی شخصیات سے وابستہ رہنا ایسے ہی ضروری ہے جیسے مچھلی کے لیے پانی، اور حیوانات کے لیے ہوا ضروری ہوتی ہے۔ اپنے تشخص کی حفاظت کے بغیر ہم مسلمان ہونے کی حیثیت سے زِندہ نہیں رہ سکتے۔ اِس لیے وقت کا اَوّلین تقاضہ ہے کہ ہمارا معاشرہ اِسلامی ہو، ہمارا رہن سہن مسلمانوں جیسا اور ہمارے اَخلاق وکردار اور ہمارا طرزِ زندگی اِسلامی قالب میں ڈھلا ہوا ہو۔ یہی چیزیں ہماری دینی اور دُنیوی کامیابی کی ضمانت ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق خیر سے نوازے، آمین