ماہنامہ انوار مدینہ لاہور فروری 2015 |
اكستان |
|
یہ مذکورہ بالا واقعات آپ ۖ کی حیات ِ طیبہ میں ہوئے، آپ کی وفات کے بعد بھی گستاخی کرنے والے کی یہی سزا ہوگی۔ ٭ حضرت اَبو برزہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں حضرت اَبو بکر رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر تھا آپ کسی آدمی پر بہت ہی زیادہ غضب ناک ہوئے ،میں نے عرض کیا اے رسول اللہ کے خلیفہ مجھے اِجازت دیں میں اِس کی گردن ماردُوں تو آپ نے فرمایا میری ڈانٹ نے اِس پر میرے غصے کو ختم کردیا پھر آپ اُٹھے اور اَندر چلے گئے اور میری طرف کسی کو بھیجا اور (بُلا کر) فرمایا اَبھی تم نے کیا کہا تھا ؟ میں نے کہا کہ مجھے اِجازت دیں کہ میں اِس شخص کی گردن ماردُوں ۔ فرمایا، اگر میں تجھ کو حکم دُوں تو کیا تو یہ کر گزرے گا ؟ میں نے عرض کیا جی ! فرمایا نہیں بخدا اللہ کے رسول کے علاوہ کسی بشر کے لیے یہ سزا وار نہیں۔( اَبو داود ج ٢ ص ٦٠٠ ) حضرت اَبوبکر رضی اللہ عنہ کے اِس عمل سے یہ بات واضح ہو رہی ہے کہ پہلے کی طرح اَب بھی رسول اللہ ۖ کی شانِ اَقدس میں گستاخی کرنے والے کی سزا موت ہے۔ لہٰذا پوری دُنیا کے مسلم حکمرانوں کو فرانسیسی گستاخوں کے خلاف بہت پہلے سے کار روائی کرنی چاہیے تھی مگر اَب جبکہ صرف ایک اِسلامی ملک ترکی نے فرانس سے اپنا سفیر واپس بلا لیا اور فرانس کے سفیر کو اپنے ملک سے چلتا کیا تو کم اَز کم اَب ہر اِسلامی ملک اِس کی صحیح اور بروقت کار روائی کی بھرپور حمایت کرے۔ ہماری دُعا کے اللہ تعالیٰ ترک حکومت کو مزید اِستقامت اور ثابت قدمی عطا فرمائے اُن کی مدد فرمائے اور تمام اَندورنی اور بیرونی طاغوتی قوتوں کو اُن کی ناپاک سازشوں میں ناکام و نامراد فرمائے ، آمین۔