ماہنامہ انوار مدینہ لاہور فروری 2015 |
اكستان |
|
میرے ''حضرت جی '' ( مولانا قاری تنویر اَحمد صاحب شریفی، کراچی ) اپنے بچپن میں گھر کے اَندر جن بزرگوں کے نام اور تذکرے کان میں پڑے اُن میں سرفہرست ''حضرت جی'' تھے۔ میرے جد اَمجد حضرت مولانا قاری شریف اَحمد صاحب رحمة اللہ علیہ اور اُن کے تمام تلامذہ حضرت جی کہہ کر ایک بزرگ کو یاد کرتے تھے۔ یہ حضرت جی کون ہیں ؟ دِل میںسوال پیدا ہوتا تھا، رفتہ رفتہ معلوم ہوا کہ لاہور میں ایک مدرسہ ''جامعہ مدنیہ'' ہے اُس مدرسہ میں یہ حضرت جی ایک بزرگ ہیں اُن کا نام '' سیّد حامد میاں '' ہے۔ اپنے گھر کے بزرگوں سے ایک اور بزرگ کا نام اور خدمات بھی سننے کو ملتی تھیں وہ بزرگ ''حضرت مولانا سیّد حسین اَحمد صاحب مدنی رحمة اللہ علیہ '' تھے، بعد میں اِن کی عظمت دِل میں پیوست ہوگئی اَللّٰہُمَّ لَکَ الْحَمْدُ وَلَکَ الشُّکْرُ . حضرت جی اِن بڑے بزرگ کے شاگرد ِرشید اور خلیفۂ مجاز تھے۔ میرے حفظ کا زمانہ تھا اور یہ تعلیمی دور طبعاً کھیل کود اور لااُبالی پن کا ہوتا ہے لیکن اُس وقت بزرگوں کے تذکرے جوکان میں پڑے تھے اُس سے یہ کیا کم فائدہ ہوا کہ ہم آج کے پرفتن اور مصروف ترین مشینی دور میں اپنے اَکابر بزرگوں سے واقف ہیں ؟ اللہ تعالیٰ اِسے نجاتِ اُخروی کا ذریعہ بنائے، آمین ! حکیم الامت حضرت مولانا اَشرف علی تھانوی قدس اللہ سرہ العزیز کے ملفوظات میں کسی جگہ پڑھا تھا آپ فرماتے تھے کہ : ''چھوٹے بچے بھی اگر ایسی جگہ موجود ہوں جہاں کوئی بیان ہو رہا ہو، اللہ و رسول کی بات ہو رہی ہو اور یہ بچے اُس دوران شرارت اور کھیل کود میں مشغول ہوں، اِس کے باوجود بھی اُن کا وہاں موجود ہونا فائدے سے خالی نہیں، کسی بھی وقت اُنہیں یاد آجائے گا کہ فلاں جگہ اور فلاں وقت ہمارے کان میں یہ بات پڑی تھی اور