ماہنامہ انوار مدینہ لاہور فروری 2015 |
اكستان |
|
''مندرجہ بالا مصاحف (مصحف ِمشارقہ، مصحف ِمغاربہ اور مصحف ِنستعلیق) میں الف کے حذف واِثبات کی بنیاد ائمہ کے نصوص وروایات اور قدیم مصاحف ہیں۔ وہ نتیجہ نمبر ٧ میں لکھتے ہیں کہ اِس مقالے سے یہ حقیقت واضح ہوگئی کہ مشارقہ اور مغاربہ کے مصاحف عمومًا اِمام اَبو داؤد بن نجاح کی تصریحات پر عمل کرتے ہیں جبکہ ہندو پاک کے مصاحف میںاِمام دانی کے نصوص ونقول پر عمل کیا جاتا ہے۔'' (ندوة طباعة القرآن الکریم ٣ /١١٦٢ ، ١ ١١٦) یوں اِس مقالے میں ائمہ رسم کی تصریحات اورقدیم کتب کے حوالہ جات سے ثابت کیا گیا ہے کہ پاکستانی مصاحف میں عمومًا جو اِثباتِ الف کا منہج اپنایا گیا ہے اُس کی بنیاد و دلیل اِمام اَبوعمرو دانی متوفٰی ٤٤٤ھ کی تصریحات ہیں جبکہ عربوں کے جن مصاحف میں حذف ِالف کا منہج اِختیار گیا ہے اُنہوں نے اِمام دانی کے شاگرد اِمام اَبو داؤد بن نجاح متوفی ٰ ٤٩٦ ھ کے اَقوال کو بنیاد بنایا ہے لہٰذا یہ دونوں منہج صحیح ہیں اور رسمِ عثمانی کے عین مطابق ہیں۔ دُوسرا مقالہ : فضیلة الشیخ ڈاکٹر محمد شفاعت ربانی حفظہ اللہ کا ہے جو جامعہ اِسلامیہ بنوری ٹاؤن کراچی کے فاضل ہیں اور حضرت مولانا محمد یوسف بنوری رحمة اللہ علیہ کے شاگرد ہیں،اِنہوں نے مدینہ یونیورسٹی سے علومِ قرآن میں گریجویشن، ماسٹر ز اورپی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی اور اَب وہ مجمع ملک فہد کے ''قرآنک ریسرچ سنٹر ''میں سینئر ریسرچ سکالر ہیں،اِن کا مقالہ ٩٥ صفحات پر مشتمل ہے اور ندوة طباعة القرآن کے شائع کردہ سیٹ کی جلد نمبر ٣ کے صفحہ ١٢١٣ سے ١٣٠٨ تک موجود ہے۔ اِن کے مقالے کاعنوان ہے : ''تاج کمپنی کے مصحف کارسم، ایک تقابلی جائزہ '' اِنہوں نے اپنے مقالے کی تمہیدمیں مصاحف ِ عثمانیہ کی مختصر تاریخ اوررسمِ عثمانی کے حوالے