ماہنامہ انوار مدینہ لاہور فروری 2015 |
اكستان |
|
منعقد ہوجاتا تو ہزار پریشانیوں اور تنگیوں کے باوجود زندگی بھر اِس کڑوے گھونٹ کو پینا پڑتا، اُس وقت یا تو عورت ظلم وستم کا نشانہ بنی رہتی یا پھر شوہر کا گھر خواہ مخواہ جہنم بن جاتا، اِس سے اَندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ شریعت اِسلامیہ میں طلاق کو مشروع کرکے کس قدر اِحسان فرمایا گیا ہے۔ ( اَلمصالح العقلیہ ٢٢٦) طلاق کو عورتوں پر ظلم کرنے کے لیے مشروع نہیں کیا گیا بلکہ اِس کا مقصد اُس ظلم کو دفع کرنا ہے جو طلاق نہ ہونے کی صورت میں مرد کا عورت پر ہوسکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اِسلام کی نظر میں اَشیائِ مباحہ میں سب سے مبغوض چیز طلاق ہے ،اِرشاد نبوی ۖ ہے : اَبْغَضُ الْحَلاَلِ اِلَی اللّٰہِ الطَّلاَقُیعنی اللہ کی نظر میں حلال چیزوں میں سے بری چیز طلاق ہے۔ ( مشکوة شریف ٢ / ٢٨٣) مگر یہ اُس وقت ہے جبکہ بِلا ضرورت طلاق دی جائے، اِس لیے کہ ضرورت کے وقت طلاق دینا شرعًا جائز بلکہ بسااَوقات ضروری ہو جاتا ہے۔ دُرمختار میں لکھا ہے کہ اگر حقوق کی اَدائیگی معروف طریقہ پر نہ ہوسکے تو طلاق دینا واجب ہے۔ (دُرِمختار مع الشامی ٣/ ٢٢٩)قرآنِ کریم میں بھی نا اِتفاقی کے وقت عورت کو معلق بناکر چھوڑنے کی ممانعت وارِد ہوئی ہے۔ (سورۂ نساء : ١٢٩) طلاق کا اِستعمال کب ؟ طلاق کوئی ہنسی کھیل نہیں کہ جب چاہیں طلاق دے دیں بلکہ اِس کا اِستعمال صرف اِنتہائی حربہ اور واقعی گلو خلاصی کے لیے ہی ہونا چاہیے۔ آنحضرت ۖ نے اِرشاد فرمایا ہے کہ '' عورتوں کو صرف فاحشہ میں اِبتلاء کے وقت ہی طلاق دو۔'' اور آپ ۖ نے فرمایا کہ ''اللہ تعالیٰ ذائقہ چھکنے والے مرد اور ذائقہ چھکنے والی عورتوں (جلدی جلدی رشتہ مناکحت ختم کرنے والے مرد وعورت) کو پسند نہیں فرماتا۔'' ( مجمع الزوائد ٤/ ٣٣٥) ایک دُوسری حدیث میں اِرشاد فرمایا گیا کہ '' جو عورت بغیر کسی وجہ کے شوہر سے طلاق کا مطالبہ کرے اُس پر جنت کی خوشبو