ماہنامہ انوار مدینہ لاہور فروری 2015 |
اكستان |
|
بزرگوں کی مجلس نصیب ہوئی تھی۔ او کمال قال ! '' حضرت مولانا قاری شریف اَحمد صاحب رحمة اللہ علیہ رمضان المبارک کے آخری عشرے میں اہتمام کے ساتھ رات کے آخری حصے میں قرآنِ پاک تراویح میں پڑھتے تھے، بحمد اللہ آج بھی یہ عمل جاری ہے۔ اُس وقت مدرسہ کے کچھ بچے بھی اپنے والدین کے ساتھ آتے تھے جو اپنے بچپن کی وجہ سے کبھی مسجد سے باہر گھومتے رہتے تھے کبھی باتیں کرتے تھے، حضرت قاری صاحب سے کوئی اُن کی شکایت کرتا تو فرماتے : ''اِن کا اِس عمر میں یہاں آنا اِس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ مستقبل میں اِن کے دِل میںاِس طرح قرآنِ مجید پڑھے جانے کی قدرو منزلت ہوگی، لہجہ اُن کے کان میں رس گھول رہا ہے یہ اِسی طرح سیکھ جائیں گے، لہجہ بھی آجائے گا اور اللہ کرے گا آداب سے بھی واقف ہوجائیں گے۔'' واقعتا ایسا ہی ہے ہمارے بچپن میں جن بزرگوں کے نام کان میں پڑے،اللہ تعالیٰ نے اُن بزرگوں سے عقیدت کی سبیل پیدا فرمادی جن کے ذریعہ ایسا ہوا اللہ کریم اُنہیں خوب خوب جزائے خیر عطا فرمائے۔ آمین ! ''حضرت جی'' میانہ قد، خوب صورت باوجیہہ چہرہ، کھال کی ایک کونے کابی ٹوپی پہنے، ہاتھ میں اسٹیل کی ایک ڈبیہ جیسے پان کی ہوتی ہے لیکن اُس میں پان کی بجائے غالبًا الائچی کے دانے ہوتے تھے، ہاتھ پر تہہ ہوا رُومال بڑے سلیقہ سے لٹکاتے تھے۔ بڑے دھیرے دھیرے ناپ تول کر بات فرماتے تھے، لاہور میں رہنے کے باوجود میں نے اُنہیں پنجابی میں بات کرتے نہیں دیکھا۔ کوئی پنجابی میںاُن سے بات کرتا تھا تو جواب اُس وقت کی دُنیا کی تیسری فضیلت والی زبان ''اُردو'' میں ہی دیتے، رات کو جاگنے کے بادشاہ تھے جتنی دیر چاہے مجلس جمی رہتی۔ مجھے وہ وقت یاد ہے کہ ''حضرت جی'' کراچی تشریف لاتے تو سٹی اسٹیشن کی مسجد میںدائیں طرف اُوپر کی منزل کے(شمال میں) ایک چھوٹے سے کمرے میں قیام فرماتے تھے، حضرت قاری صاحب