ماہنامہ انوار مدینہ لاہور فروری 2015 |
اكستان |
|
اِن تین طریقوں کے ذکر کے بعد اِرشاد فرمایا گیا کہ اَب بھی اگر وہ اِطاعت گزار ہوجائیں تو اُن پر بہانے مت ڈھونڈو یعنی پھر بال کی کھال نہ نکالو بلکہ سابقہ کوتاہیوں کو بھول جاؤ، یہاں صرف اِطاعت کا پہلو ذکر کیا گیا عدمِ اِطاعت کے پہلو کو چھوڑ دیا گیا ،یہ اِس بات کی طرف مشیر ہے کہ قرآن کی نظر میں اَصل اہمیت اِطاعت کی ہے، عدمِ اِطاعت کی نہیں۔ (٤) مذکورہ بالا تینوں طریقے معاملہ کو گھر کی چہار دیواری میں سلجھانے کے متعلق تھے لیکن اگر معاملہ آگے بڑھ کر برادری اور اہلِ خاندان میں مشہور ہوجائے اور میاں بیوی میں جدائی کا اَندیشہ ہوجائے تو لوگوں کو محض تماشائی بننے کو نہیں کہا گیا بلکہ اُنہیں اِس اَمر پر اُبھارا گیا کہ وہ دونوں میں مصالحت کے لیے ثالثی کا کردار اَدا کریں۔ لڑکے اور لڑکی دونوں کے اہلِ خاندان میں سے حکم مقرر ہوں اور دونوں کے معاملات اور شکایتیں سن کر بد اِعتمادی دُور کرنے کا فریضہ اَنجام دیں، یہاں بھی ثالثی کی ناکامی کا ذکر نہ کر کے صرف اِس بات کو بتایا گیا کہ اگرثالث مخلص ہوں گے تو اللہ تعالیٰ اُن کی کوششوں کو بار آور کرتے ہوئے زوجین میں صلح کرادے گا، اِنشا ء اللہ ۔ اِسلام کا یہ دستور العمل نہایت مفید اور تجربہ کی رُوسے معاشرتی زندگی کی کامیابی کی بہترین ضمانت ہے مگر اَفسوس کہ یہ دستور العمل آج ہمارے معاشرے سے نکل چکا ہے، آج ہر طرف اِنتہا پسندی ہے ،نہ مرد کو عورت کا پاس ولحاظ ہے اور نہ عورت کو مرد کی عظمت کا اِحساس ہے۔ میاں بیوی میں جب نزاع ہوتا ہے تو وہ بڑھتا ہی چلا جاتا ہے، نہ بچوں کی تربیت کی فکر ہوتی ہے، نہ خاندان کی عزت کا خیال ہوتا ہے اور دونوں فریق ایک دُوسرے پر خوب کیچڑ اُچھالتے ہیں حالانکہ یہ طرزِ عمل اِسلامی تعلیمات کے خلاف ہے، اِسلامی ہدایات جو ڑ پر زور دیتی ہیں اِفتراق اور توڑ کی ترغیب نہیں دیتیں اِس لیے ہمیں اِن رشتوں کو حتی الامکان نبھانے کی کوشش کرنی چاہیے۔ ''طلاق'' کا حکم اور اُس کا مقصد : اِسلام کے فطری اَحکامات میں ایک اہم حکم ''طلاق'' کا بھی ہے۔ طلاق بعض اَوقات معاشرہ کی ضرورت بن جاتی ہے، ذر ا تصور کیجئے اگر طلاق کا حکم نہ ہوتا تو کتنی مصیبت میں جان ہوتی، جو نکاح