ماہنامہ انوار مدینہ لاہور فروری 2015 |
اكستان |
|
''پاکستانی مصاحف کی حالت ِزار اور معیاری مصحف کی ضرورت'' اِس میں بڑے واضح اَنداز میں پاکستانی مصاحف کے رسم اور ضبط کو بالکلیہ غلط قرار دیا گیا اور بز عمِ خویش اِس میں 73,586 کے لگ بھگ غلطیوں کی نشاندہی کی گئی اور مصحف ِاَمیری والے رسم وضبط کو بالکل صحیح قرار دیا گیا۔ پاکستان سے تشریف لانے والے معزز مہمان سکالرز جب اِس قرآن سمینار مدینہ منورہ میں شریک ہوئے اور پاکستانی مصاحف کے رسم پر تنقید کی تو یہ اُن کے لیے سنہری موقع تھا کہ ایک وسیع، غیر جانب دار اور عالمی سطح کے اسٹیج پر وہ اپنے موقف کو علمی بنیادوں پر ثابت کردیتے اور پاکستان واپس لوٹ کر بِلا روک و ٹوک اپنے مزعومہ معیاری اور مثالی مصحف کا سفر آگے بڑھاتے لیکن عالمی سطح کے اِس علمی اسٹیج پر وہ اپنا موقف دلائل سے ثابت نہ کر سکے۔ اَلبتہ میں پاکستان سے تشریف لانے والے اپنے معزز مہمان سکالرز کے دفاع میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ پاکستان و ہندوستان کے علمائِ کرام نے صدیوں پر محیط اِمام دانی کے اِس رسمِ عثمانی والے منہج کی علمی نگرانی اور اِس کی روشنی میں مصاحف کی کتابت و طباعت کا اہتمام تو کیا لیکن پاکستانی مصاحف کے تفصیلی منہج پر کوئی باقاعدہ اور مستقل دستاویز مرتب نہ کی گئی تھی مثلاً ١٩٣٥ ء میں مفتی اعظم ہند مفتی کفایت اللہ دہلوی کی نگرانی میں تیار ہوانے والا تاج کمپنی کا نسخہ اور حضرت مولانا اَبو الحسن علی ندوی ومولانا منظور اَحمد نعمانی وغیرہما کی نگرانی میں چھپنے والا مصحف اَلفی اور حضرت قاری رحیم بخش صاحب پانی پتی کی نگرانی میں چھپنے والا تاج المصاحف خاص طور پر قابلِ ذکر ہیں، جن سے محترم ڈاکٹر محمد شفاعت صاحب نے اپنے مذکورہ مقالے میں اِستفادہ کیا اور ثابت کیا کہ اِن مصاحف میں اِمام دانی کے اُسی منہج کی پابندی کی گئی ہے لیکن اُس کے دلائل پر مشتمل کسی مستقل دستاویز مرتب نہ ہونے کہ وجہ سے عرب دُنیا میں بعض سکالرز اور شایداُن کی دیکھا دیکھی ہمارے بعض پاکستانی سکالرز بھی اِس غلط فہمی کا