ماہنامہ انوار مدینہ لاہور فروری 2015 |
اكستان |
|
سال سردیوں میں مسجد میں اَندر کے حصے میں جماعت کے لیے جانا بھی بس میں نہیں ہے، وہ حصہ بہت دُور معلوم ہوتا ہے۔ '' ٢٤ دسمبر کو اَچانک چکروں کی تکلیف ہوئی، ڈاکٹر اِفتخار صاحب خود ہی پیچھا کر کے بار بار بلڈپریشر چیک کرتے رہے۔ اُن ہی نے جائزہ لیتے ہوئے فرمایا کہ ڈاکٹر رندھاوا صاحب کو ضرور دِکھانا چاہیے، اِس لیے جمعہ کی شام وہ آئے اور اُنہوں نے دوائیں تجویز کیں۔ ایک ہفتہ روزانہ بلڈ پریشر چیک کرنے کی ہدایت دی جس پر اِنشاء اللہ کل سے عمل ہوگا۔ یہ تو وہ بیماری ہے جسے آلات سے پکڑا گیاہے۔ مجھے وہ بیماری پریشان کیے ہوئے ہے اور شاید اِسی لیے بلڈ پریشر رہنے لگا ہے، وہ اَعصاب کی ہے جس سے باربار بے ہوشی کے قریب چلا جاتا ہوں۔ میں اپنی بیماری کی تفصیل کسی کو نہیں لکھتا، صرف آپ کو لکھتا ہوں کہ ذہن میں یہ خیال نہ آئے ہم بلاتے ہیں اور آتا ہی نہیں ؟ اَب جب مجھے مسجد تک جانا مشکل لگتا ہے تو کسی جگہ جانا نہیں رہا، اور کراچی تو پردیس ہے، جہاں پہنچنا محتاجِ سفر ہے۔ اللہ تعالیٰ کو سب کچھ قدرت ہے کہ وہ ٹھیک کردے۔ '' ١٦ جنوری ١٩٨٣ئ حضرت جی کا کراچی تشریف لانا ممکن نہیں تھا۔ حضرت قاری صاحب نے حضرت جی سے ختم قرآن کرانے کے لیے ترتیب یہ بنائی کہ حضرت مولانا قاری سراج اَحمد صاحب رحمة اللہ علیہ کے پوتے حافظ صداقت علی صاحب کی شادی اَحمد پور شرقیہ میں تھی۔ حضرت قاری صاحب نے والد محترم مدظلہ کے ہمراہ مجھے بھی اُس میں بھیج دیا اور فرمایا کہ اِس سفر میں حضرت جی سے کوئی وقت مقرر کر کے آخری سبق پڑھوا کر دُعا کرالی جائے اور ایک خط دیا، وہ جب حضرت جی کو پیش کیا تو آپ نے جذبات کا اِظہار حضرت قاری صاحب کے نام اپنے مکتوبِ گرامی میں اِس طرح فرمایا :