ماہنامہ انوار مدینہ لاہور فروری 2015 |
اكستان |
|
تمہارے دُشمنوں نے چھین لیا تھااللہ تعالیٰ تمہیں دوبارہ دِلوادیں گے، عنقریب فرشتے اُسے تمہارے پاس اُٹھا لائیں گے اور یہ طالوت کے لیے تائید ِخدا کی علامت ہوگی چنانچہ یہ معجزہ ہوا اور بنی اِسرائیل نے تابوتِ مقدس کو اپنے سامنے موجود دیکھا تو اُنہوں نے تسلیم کرلیا کہ یہی خدا تعالیٰ کا اِنتخاب ہے۔ جب حضرت طالوت علیہ السلام بادشاہ بن گئے تو اُنہوں نے فورًا اپنے دُشمن جالوت اور اُس کے لشکر کے ساتھ جنگ کی تیاری شروع کی اور اپنے لشکر کو لے کر صحرا میں چل پڑے لیکن جالوت کے لشکر کا سامنا کرنے سے پہلے اُنہوں نے چاہا کہ بنی اِسرائیل کی شجاعت، سختیوں پرصبر اور اِطاعت کا اِمتحان لیں چنانچہ اُنہوں نے بنی اِسرائیل کومخاطب کیا اور فرمایا ہم دُشمن سے جنگ سے قبل ایک نہر پر سے گزریں گے، اُس نہر میں سے زیادہ پانی کوئی نہ پیے صرف چُلّوبھرپانی سے اپنا حلق ترکرے ہر گز سیر ہوکر پانی نہ پیے،جب وہ نہر پر پہنچے تو اُنہوں نے حضرت طالوت علیہ السلام کی ہدایت پر عمل نہ کیا بلکہ وہ نہر میں کود پڑے اور خوب سیر ہوکر پانی پینے لگے حتی کہ اُن کے پیٹ بھر گئے تاہم ایک چھوٹی سی جماعت نے حضرت طالوت علیہ السلام کے فرمان کے مطابق فقط ہاتھوں سے چُلّو بھر پانی پیا اور صرف یہی جماعت اُن کے ہمراہ میدانِ جنگ تک پہنچ سکی۔ جنگ کا وقت آپہنچا اور بنی اِسرائیل نے صف بندی کرلی اور سب سے آگے حضرت طالوت علیہ السلام تھے۔جب بنی اِسرائیل نے جالوت کے لشکر کی تعداد اور سامانِ جنگ کی کثرت دیکھی تو اُن میں سے بعض نے بھاگنے کااِرادہ کیااور کہنے لگے : ( لَاطَاقَةَ لَنَا الْیَوْمَ بِجَالُوْتَ وَجُنُوْدِہ ) (سُورة البقرہ : ٢٤٩) ''طاقت نہیں ہم کو آج جالوت اور اُس کے لشکروں سے لڑنے کی۔'' لیکن مومنین اور صابرین نے اُنہیں جواب دیا : ( کَمْ مِنْ فِئَةٍ قَلِیْلَةٍ غَلَبَتْ فِئَةً کَثِیْرَةً بِاِذْنِ اللّٰہِ وَاللّٰہُ مَعَ الصّٰبِرِیْنَ ) (البقرہ : ٢٤٩) ''بارہا تھوڑی جماعت غالب ہوئی بڑی جماعت پر اللہ کے حکم سے اور اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔''