ماہنامہ انوار مدینہ لاہور فروری 2015 |
اكستان |
|
اُنہوںنے اللہ تعالیٰ سے دُعاکی : ( رَبَّنَا اَفْرِغْ عَلَیْنَا صَبْرًا وَّثَبِّتْ اَقْدَامَنَا وَانْصُرْنَا عَلَی الْقَوْمِ الْکٰفِرِیْنَ) (سُورة البقرہ : ٢٥٠) ''اے ہمارے رب ! ڈال دے ہمارے دِلوں میں صبر اور جمائے رکھ ہمارے پاؤں اور مدد کر ہماری اِس کا فر قوم پر۔'' جالوت اپنی لوہے کی زِرہ پہن کر تلوار سونتے ہوئے اور اپنی طاقت کے نشہ میں چُور مقابلے کے لیے للکارتا ہوا میدان میں اُترا۔ اُس کی ہیبت اور رُعب کی وجہ سے قریب تھا کہ بنی اِسرائیل میدانِ جنگ سے فرار ہوجاتے لیکن ایک چرواہا جس کا نام حضرت داود علیہ السلام تھا، بہادری سے اُسے للکارتا ہوا قتال کے لیے آگے بڑھا، اُس کے پاس صرف اُس کی لاٹھی تھی جس سے وہ بکریوں کو ہانکتا تھا او ر ایک منجنیق تھی جس سے دُور تک پتھر پھینکے جاتے تھے لیکن اُس کے پاس ایک اور طاقت تھی جو اِن دونوں سے زیادہ اہم اور زیادہ قوی تھی اور وہ تھی '' اللہ پر پختہ اِیمان و یقین ''۔ حضرت داود علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ پرتوکل کیا اور منجنیق میں پتھر ڈال کر اُسے فضا میں کئی مرتبہ لہرایا اور پھر اُسے چھوڑ دیا پھر ہوا نے (جس کو اللہ تعالیٰ نے اِن کی مدد کے لیے مسخر کردیا تھا) وہ پتھر اُٹھا یااور اُس پتھر کو جالوت کے سر کے درمیان دے مارا اوراُس کے سر کے دو ٹکڑے کردیے اور وہ زمین پر جاگرا۔ جالوت کے لشکر نے جب یہ دیکھا تواُن پر شدید وحشت طاری ہوگئی اور وہ میدانِ جنگ سے بھاگ کھڑے ہوئے۔ اِس طرح اللہ تعالیٰ نے بنی اِسرائیل کو اُن کے دُشمنوں پر فتح دی تاکہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ اِن پر ظاہر کردے کہ حق تعالیٰ اپنے فرمانبردار بندوں سے کبھی غافل نہیں ہوتے۔ حضرت طالوت علیہ السلام کی وفات کے بعد یہی حضرت داود علیہ السلام حاکم مقرر ہوئے اور اللہ نے اِنہیں حکومت اور مملکت عطا فرمائی اور اِنہیں بنی اِسرائل کا حکمران اور نبی بنایا۔