ماہنامہ انوار مدینہ لاہور فروری 2014 |
اكستان |
|
مسجد تشریف لے گئے، اُس وقت دُرّہ آپ کے ہاتھ میں ہوتا تھا اور سونے والوں کو اپنے دُرّے سے جگاتے جاتے تھے، مسجد پہنچ کر نمازیوں کی صفیں درست کرنے کا حکم دیتے تھے اِس کے بعد نماز شروع فرماتے تھے اور نماز میں بڑی بڑی سورتیں پڑھتے تھے اُس روز بھی آپ نے ایسا ہی کیا نماز شروع ہی کی تھی صرف تکبیر ِ تحریمہ ہی کہنے پائے تھے کہ ایک مجوسی کافر اَبو لؤ لو نے جو حضرت مغیرہ کاغلام تھا ایک زہر آلود خنجر لیے ہوئے مسجد کی محراب میں چھپا بیٹھا تھا آپ کے شکم میں تین زخم کاری اُس خنجر سے لگائے جس سے آپ اُسی وقت بے ہوش ہوکر گر گئے اور حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ نے آگے بڑھ کر بجائے آپ کے اِمامت کی اور مختصر نماز پڑھا کر سلام پھیرا۔ اَبو لؤلو نے چاہا کہ کسی طرح مسجد نے نکل کر بھاگ جائے مگر نمازیوں کی صفیں مثلِ دیوار کے حائل تھیں، نکل جانا آسان کام نہ تھا لہٰذا اُس نے اور صحابیوں کو بھی زخمی کرنا شروع کیا، اِس طرح تیرہ صحابی اور زخمی ہوئے جن میں سے سات جان بحق ہوگئے، اِتنے میںنماز ختم ہوگئی اور اَبو لؤ لو پکڑ لیا گیا، جب اُس نے دیکھا کہ میں گرفتار ہو گیا ہوں تواُسی خنجر سے اُس نے اپنے کو ہلاک کر لیا۔ '' اِتنا بڑا واقعہ ہوا مگر کسی مسلمان نے نماز نہیں توڑی،نماز پورے اِطمینان کے ساتھ ختم کی گئی نماز کے بعد حضرت فارقِ اعظم رضی اللہ عنہ کو لوگ اُٹھا کر اُن کے مکان پر لے گئے تھوڑی دیر کے بعد آپ کو ہوش آیا اور آپ نے فجر کی نماز اُسی حالت میںاَدا کی۔ سب سے پہلے آپ نے سوال کیا کہ میرا قاتل کون ہے ؟ حضرت اِبن ِ عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا : اَبو لؤ لو ، مجوسی کافر۔ یہ سن کر آپ نے تکبیر ایسی بلند آواز سے کہی کہ باہر تک آواز گئی اور فرمایا کہ اللہ کا شکر ہے اُس نے ایک کافر کے ہاتھ سے مجھے شہادت عطا فرمائی۔