ماہنامہ انوار مدینہ لاہور فروری 2014 |
اكستان |
|
حضرت آدم علیہ السلام اِس بات سے بہت پریشان ہوئے اور سوچنے لگے کہ کیا لائحۂ عمل اِختیار کیا جائے کہ اِس پریشانی سے نجات حاصل ہوسکے۔ اللہ نے آپ کی طرف وحی بھیجی کہ آپ اپنے بیٹوں سے کہیں کہ وہ دونوں اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں قربانی پیش کریں جس کی قربانی قبول ہوگئی اُس کی خواہش پوری ہوجائے گی چنانچہ ہابیل نے جو مویشی چرایا کرتے تھے اپنے ریوڑ میں سے ایک بڑا اور صحت مند دُنبہ قربانی کے لیے پیش کیا اور قابیل نے جو کہ زراعت پیشہ تھا اَجناس قربانی کے لیے پیش کیں۔ رات بھر وہ منتظر رہے حتی کہ اَگلی صبح آسمان سے آگ اُتری اور دُنبے کو چٹ کر گئی جبکہ اَجناس کے قریب بھی نہ پھٹکی ۔اِس کا یہ مطلب تھا کہ اللہ تعالیٰ نے ہابیل کی قربانی قبول فرمالی ہے اور قابیل کی نامنظور ہے۔ اِس طرح ہابیل کے حق میں یہ فیصلہ ہو گیا کہ وہ قابیل کی جڑواں بہن سے نکاح کریں جیسا کہ حضرت آدم علیہ السلام کا حکم بھی تھا۔ یہ دیکھ کر قابیل کے دِل میں کینہ اور غیر ت کی آگ بھڑک اُٹھی اور اُس نے اپنے بھائی ہابیل سے کہا : ( لَاَقْتُلَنَّکَ ) ( سُورة المائدہ ٢٧)''میں تجھے مار ڈالوں گا۔'' ہابیل نے اُسے جواب دیا : ( لَئِنْ بَسَطْتَّ اِلِیَّ یَدَکَ لِتَقْتُلَنِیْ مَا اَنَا بِبَا سِطٍ یَّدِیَ اِلَیْکَ لِاَقْتُلَکَ۔ اِنِّیْ اَخاَفُ اللّٰہَ رَبَّ الْعٰلَمِیْنَ۔ اِنِّیْ اُرِیْدُ اَنْ تَبُوْاَ بِاِثْمِیْ وَاِثْمِکَ فَتَکُوْنَ مِنْ اَصْحَابِ النَّارِ) (سُورة المائدہ ٢٨، ٢٩) ''اگر تو ہاتھ چلا وے گا مجھ پر مارنے کو، میں نہ ہاتھ چلاؤں گا تجھ پر مارنے کو، میں ڈرتا ہوں اللہ سے جو پرور دگار ہے سب جہان کا۔ میں چاہتاہوں کہ تو حاصل کرے میرا گناہ اور اپنا گناہ پھر ہوجاوے تو دو زخ والوں میں اور یہی ہے سزا ظالموں کی۔ '' لیکن شیطان مُصِر تھا کہ موقع ضائع نہ ہونے پائے چنانچہ قابیل کے دِل میں دُشمنی اور غیرت کی آگ بھڑ کانے لگا چنانچہ ہابیل کی مذکورہ نصیحت کا کچھ اَثر قابیل کے دِل پر نہ ہوا بلکہ اُس کا بغض اور جرم کا اِرتکاب پر اِصرار مزید بڑھ گیا۔ ( فَطَوَّعَتْ لَہ نَفْسُہ قَتْلَ اَخِیْہِ فَقَتَلَہ فَاَصْبَحَ مِنَ الْخٰسِرِیْنَ )