ماہنامہ انوار مدینہ لاہور دسمبر 2013 |
اكستان |
|
گھونگنیاں (پکے ہوئے چنے) تقسیم کرتے ہیں،عمدہ قسم کے کھانے پکانے کا اہتمام کرتے ہیں اِس دن خوشی وتہوار مناتے ہیں کاریگر اور مزدور کام نہیں کرتے اپنے مالک سے مٹھائی کا مطالبہ کرتے ہیں، بعض مکتبوں میں بھی اِس دن چھٹی کی جاتی ہے اور اِس سلسلے میں ایک شعر بھی گھڑ لیا ہے جس کا مضمون یہ ہے : آخری چہار شنبہ آیا ہے غسلِ صحت نبی نے پایا ہے حالانکہ یہ تمام باتیں منگھڑت ہیں اِسلامی اِعتبار سے ماہِ صفر کی آخری بدھ کی کوئی خاص اہمیت اور اِس دن شریعت کی طرف سے کوئی خاص عمل مقرر نہیں ہے ۔اِس سلسلہ میںایک لطیفہ بھی منقول ہے کہ ایک نوابزادے نے اپنے اُستاد سے اِس تاریخ میںعیدی مانگی،اُنہوں نے شعر کے اَندازمیں اِس عیدی کو بہت اچھے طریقے پررَد کردیا آخری چہار شنبہ ماہِ صفر ہست چوں چہار شنبہ ہائے دِگر نہ حدیثی شد درآں وارِد نہ دَرو عید کرد پیغمبر '' صفر کے مہینے کی آخری بدھ دُوسرے مہینوں کی آخری بدھ کی طرح ہے اِس بارے میں کوئی خاص حدیث یا واقعہ ثابت نہیں اورنہ ہی اِس میں نبی ۖ نے کوئی عید منائی ہے۔'' (زوال السِنة عن اعمال السَنَة ص ٨) بعض لوگ اِس دن گھروں میں اگر مٹی کے برتن ہوں تو اُن کو توڑ دیتے ہیں ،اِسی دن بعض لوگ چاندی کے چھلّے اورتعویذات بنا کر مختلف مصیبتوں خاص کرصفر کی نحوست سے بچنے کی غرض سے پہنا کرتے ہیں، یہ چیزیں بھی توہم پرستی میں داخل ہیں ۔ لہٰذا اِس دن کاریگر اورمزدوروں کا خاص اہتمام سے چھٹی کرنا بے اَصل ہے اورمزدُوروں کا مالک سے مٹھائی وغیرہ کا مطالبہ کرنا صحیح نہیں اوراِس دِن کو دُوسرے دِنوں کی بہ نسبت زیادہ فضیلت اور ثواب والا سمجھنا بدعت ہے اور اِس دن برتن وغیرہ توڑنا اورمصیبتوں اورنحوست سے بچنے کے لیے چھلے اورتعویذ بنانا بھی شرعاً منع ہے کیونکہ یہ سب چیزیں قرآن وسنت ، صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم ، تابعین ، ائمہ مجتہدین اور سلف ِصالحین رحمہم اللہ کسی سے بھی ثابت نہیں ،یہ سب بعد کے لوگوں کی اِیجاد ہے اور اپنی