Deobandi Books

شرح ثمیری شرح اردو قدوری جلد 2 - یونیکوڈ

97 - 457
ولا یجوز التصرف فی رأس المال ولا فی المسلم فیہ قبل القبض]٩٦٣[ (١٢) ولا یجوز الشرکة ولا التولیة فی المسلم فیہ قبل قبضہ]٩٦٤[ (١٣) ویصح السلم فی الثیاب اذا سمی طولا و عرضا ورقعة۔

نہیں۔ رأس المال سے مراد ثمن اور مسلم فیہ سے مراد مبیع ہے۔  
وجہ  حدیث میں پہلے گزر چکا ہے کہ مبیع پر قبضہ کرنے سے پہلے اس میں تصرف کرنا جائز نہیں۔ مثلا اس کو بیچنا یا اس کو ہبہ کرنا جائز نہیں ہے۔ اور سلم میں رأس المال مبیع کے درجے میں ہے اس لئے اس پر قبضہ کرنے سے پہلے اس میں تصرف کرنا جائز نہیں (٢) حدیث میں ہے  سمعت ابن عباس یقول اما الذی نھی عنہ النبی ۖ فھو الطعام ان یباع حتی یقبض قال ابن عباس ولا احسب کل شیء الا مثلہ (الف) (بخاری شریف، باب بیع الطعام قبل ان یقبض و بیع مالیس عندک ص ٢٨٦ نمبر ٢١٣٥ مسلم شریف ، باب بطلان بیع المبیع قبل القبض ص ٥ نمبر ٣٨٣٨١٥٢٥ ابو داؤد شریف نمبر ٣٤٩٢) اس حدیث میں مبیع پر قبضہ کرنے سے پہلے بیچنے سے منع فرمایا ہے۔اور چونکہ بیع سلم میں رأس المال مبیع کے درجے میں ہے اس لئے اس پر قبضہ کرنے سے پہلے تصرف کرنا جائز نہیں ہے۔اور مسلم فیہ تو مبیع ہے ہی اس لئے اس پر بھی قبضہ کرنے سے پہلے اس میں تصرف کرنا جائز نہیں ہے۔
]٩٦٣[(١٢)اور نہیں جائز ہے شرکت اور نہ تولیہ مسلم فیہ میں اس کے قبضہ کرنے سے پہلے۔  
تشریح  مسلم فیہ یعنی مبیع پر ابھی قبضہ نہیں کیا ہے اور اس میں بیع تولیہ کرنا چاہتا ہے تو نہیں کر سکتا۔اسی طرح اس میں کسی کو شریک کرنا چاہتا ہے تو نہیں کر سکتا ۔
 وجہ  بیع تولیہ کرنا یا کسی کو شریک کرنا اس میں تصرف کرنا ہے۔اور ابھی گزر چکا ہے کہ مبیع پر قبضہ کرنے سے پہلے اس میں تصرف کرنا جائز نہیں ہے۔اس لئے مسلم فیہ پر قبضہ کرنے سے پہلے اس میں بیع تولیہ کرنا یا کسی کو شریک کرنا جائز نہیں ہے۔
]٩٦٤[(١٣) اور صحیح ہے بیع سلم کرنا کپڑے میں جبکہ متعین کی جائے لمبائی۔چوڑائی اور اصل جوہر۔  
تشریح   رقعة کے معنی ہیں پیوند،کپڑے کا ٹکڑا،یہاں اس کا مطلب ہے کہ کپڑے کا جوہر اور حقیقت کیا ہے اور کس قسم کا کپڑا ہے،تو مطلب یہ نکلا کہ کپڑے کی لمبائی کہ کتنے گز ہیں اور چوڑائی کہ کتنا انچ چوڑا ہے اور کس قسم کا کپڑا ہے یہ سب متعین ہو جائے تو کپڑے میں بھی بیع سلم جائز ہے۔ اس دور میں مشین ایک ہی قسم کے ہزاروں گز کپڑا بناتی ہے۔اس لئے بیع سلم جائز ہونے میں کوئی حرج نہیں ہے۔  
وجہ  اثر میں اس کا ثبوت ہے۔عن عامر قال اذا اسلم فی ثوب یعرف ذرعہ ورقعہ فلا بأس (ب) (مصنف ابن ابی شیبة ١٧٣ 

حاشیہ  :  (الف) حضرت ابن عباس سے سنا وہ فرماتے تھے بہر حال جس سے حضورۖ نے روکا ہے وہ غلہ ہے کہ قبضہ کرنے سے پہلے بیچا جائے۔حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ نہیں گمان کرتا ہوں مگر ہر چیز اسی کی مثل ہے۔ یعنی تمام غلوں کو قبضہ کرنے کے بعد ہی بیچا جائے۔اس سے پہلے نہیں(ب) حضرت عامر سے مروی ہے کہ اگر کپڑے میں بیع سلم کرے اور اس کے گز اور قسم معلوم ہو تو کوئی حرج کی بات نہیں ہے۔

Flag Counter