Deobandi Books

شرح ثمیری شرح اردو قدوری جلد 2 - یونیکوڈ

399 - 457
( کتاب العاریة )
]١٥٩٢[(١)العاریة جائزة وہی تملیک المنافع بغیر عوض]١٥٩٣[(٢) وتصح بقولہ اعرتک واطعمتک ھذہ الارض ومنحتک ھذا الثوب وحملتک علی ھذہ الدابة اذالم

(  کتاب العاریة  )
ضروری نوٹ  عاریت کے معنی ہیں کسی چیز کو مفت استعمال کرنے کے لئے دے اور بعد میں اس کو واپس لے لے۔اس کا ثبوت آیت میں ہے ویمنعون الماعون (آیت ٧ سورة الماعون ١٠٧) اس آیت میں کافروں کی صفت بیان کی ہے کہ وہ ماعون یعنی عاریت کی چیز سے بھی روکتے ہیں (٢) حدیث میں ہے کہ آپۖ نے ابو طلحہ سے گھوڑا عاریت پر لیا اور سوار ہوئے۔قال سمعت انسا یقول کان فزع بالمدینة فاستعار النبی ۖ فرسا من ابی طلحة یقال لہ المندوب فرکبہ فلما رجع قال ماراینا من شیء وان وجدناہ لبحرا (الف) (بخاری شریف ، باب من استعار من الناس الفرس ص ٣٥٧ نمبر ٢٦٢٧) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ کسی چیز کو عاریت پر لینا جائز ہے۔
اس میں جو شخص مالک بنائے اس کو' معیر' کہتے ہیں۔اور جس کو مالک بنایا گیا اس کو'  مستعیر' اور منفعت کو عاریت اور' مستعار' کہتے ہیں۔
]١٥٩٢[(١)عاریت جائز ہے اوروہ منافع کا مالک بنانا ہے بغیر عوض کے۔  
تشریح   بغیر کسی عوض کے کسی چیز کو دیدیں کہ اس سے فائدہ اٹھا کر چیز مجھے واپس دیدیں اس کو عاریت کہتے ہیں۔  
وجہ  اوپر کی حدیث میں گھوڑے کی منفعت سے فائدہ اٹھا کر آپۖ نے گھوڑا واپس دیدیا(٢) اثر میں ہے۔عن عبد اللہ قال کنا نعد الماعون علی عھد رسول اللہ ۖ عاریة الدلو والقدر (ب) (ابو داؤد شریف، باب فی حقوق المال ص ٢٤١ نمبر ١٦٥٧) اس اثر سے معلوم ہوا کہ کسی کو ڈول اور ہانڈی استعمال کے لئے دے دینا حضورۖ کے زمانے میں ماعون یعنی عاریت سمجھی جاتی تھی۔
]١٥٩٣[(٢)اور صحیح ہوتی ہے عاریت ان الفاظ کے کہنے سے ،میں نے تم کو عاریت پر دیا۔ اور میں نے تم کو یہ زمین کھانے لئے دی ۔اور میں نے تم کو یہ کپڑا بخش دیا۔اور میں نے تم کو اس جانور پر سوار کیا جب کہ وہ اس سے ہبہ کی نیت نہ کرے۔اور تم کو یہ غلام خدمت کے لئے دیا۔اور میرا گھر تیرے رہنے کے لئے ہے۔اور میرا گھر تیرے عمر بھر رہنے کے لئے ہے۔  
تشریح  مصنف نے یہاں سات الفاظ استعمال کئے ہیں جن کے کہنے سے عاریت ہو جائے گی۔اس کے علاوہ اور بھی الفاظ ہیں جن سے عاریت کا مفہوم سمجھ میں آئے تو ان سے بھی عاریت منعقد ہوگی۔ہر ایک جملے کی تشریح پیش خدمت ہے۔اعرتک کا لفظ صریح استعمال ہوا ہے۔اطعمتک ھذہ الارض زمین کھانے کے لئے نہیں دی جاتی بلکہ اس کا غلہ کھانے کے لئے دیا جاتا ہے۔جس کا مطلب یہ نکلا کہ زمین 

حاشیہ  :  (الف) حضرت انس فرماتے ہیں کہ مدینہ میں گھبراہٹ ہوئی تو حضورۖ نے ابو طلحہ سے عاریت پر گھوڑا لیا جس کو مندوب کہتے تھے۔ پس آپۖ اس پر سوار ہوئے ۔پس جب واپس ہوئے تو آپۖ نے فرمایا مجھے تو کوئی نظر نہیں آیا۔اور اس گھوڑے کو سمندر کی لہروں کی طرح پایا(ب) حضرت عبد اللہ فرماتے ہیں کہ ہم حضورۖ کے زمانے میں ماعون کو عاریت شمار کرتے تھے۔جیسے ڈول اور ہانڈی عاریت پر لینا۔

Flag Counter