( باب السلم )
]٩٥٢[(١)السلم جائز فی المکیلات والموزونات والمعدودات التی لا یتفاوت
( باب السلم )
ضروری نوٹ بیع سلم کا مطلب یہ ہے کہ قیمت ابھی لے اور مبیع کچھ دنوں کے بعد دے۔اس بیع کو بیع سلم کہتے ہیں۔قیاس کا تقاضا یہ ہے کہ یہ بیع جائز نہ ہو۔کیونکہ حدیث میں گزرا ہے کہ جو مبیع تمہارے پاس نہ ہو اس کو نہ بیچو ولا بیع ما لیس عندک (الف) (ابو داؤد شریف نمبر ٣٥٠٤ ترمذی شریف نمبر ١٢٣٢) لیکن غرباء کے لئے یہ سہولت دی گئی ہے کہ وہ مالداروں سے قیمت ابھی لیں اور اس قیمت سے خریدو فروخت کرتے رہیں اور نفع کماتے رہیں ۔پھر جب مبیع دینے کا وقت آئے مبیع خرید کر مشتری کے حوالے کر دیں۔ چونکہ مبیع سامنے موجود نہیں ہے اس لئے مبیع کو مکمل متعین کرنے کے لئے سات شرطیں ہوں تو بیع سلم جائز ہوگی۔ان شرطوں سے مبیع کا خاکہ سامنے آجاتا ہے اور جھگڑا کرنے کا موقع نہیں رہتا۔ان شرطوں کی تفصیل آگے آئے گی۔بیع سلم جائز ہونے کی دلیل یہ آیت ہے۔یا ایھا الذین آمنوا اذا تداینتم بدین الی اجل مسمی فاکتبوہ (ب) (آیت ٢٨٢ سورة البقرة ٢) اس آیت میں فرمایا کہ کسی دین کا معاملہ کرو تو اس کو لکھ لیا کرو اور بیع سلم میں بھی دین کا معاملہ ہے اس لئے اس کا جواز بھی اس آیت میں شامل ہے (٢)حدیث میں ہے ۔عن ابن عباس قال قدم النبی ۖ المدینة وھم یسلفون بالثمر السنتین والثلاث فقال من اسلف فی شیء ففی کیل معلوم ووزن معلوم الی اجل معلوم (ج) (بخاری شریف ، باب السلم فی وزن معلوم ص ٢٩٨ نمبر ٢٢٤٠ مسلم شریف ، باب السلم ص ٣١ نمبر ١٦٠٤) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ بیع سلم جائز ہے اور تین شرطوں کا بھی علم ہوا کہ مبیع کی کیل،وزن اور مدت معلوم ہوں ۔
نوٹ باب السلم میں بائع کو مسلم الیہ،مشتری کو رب السلم ،مبیع کو مسلم فیہ اور ثمن کو رأس المال کہتے ہیں۔
]٩٥٢[(١)سلم جائز ہے کیلی چیزیں،وزنی چیزیں اور اس عددی چیزوں میں جس کے افراد میں تفاوت نہ ہو۔جیسے اخروٹ اور انڈے اور ہاتھ سے ناپنے والی چیزوں میں۔
تشریح جو چیز کیلی ہو یعنی کیل سے ناپ کر بیچی جاتی ہو جیسے گیہوں۔چاول تو اس میں بیع سلم جائز ہے۔ اسی طرح جو چیزیں وزنی ہوں یا جو چیزیں عدد سے گنی جاتی ہوں لیکن ان کے افراد میں زیادہ تفاوت اور فرق نہ ہو جیسے اخروٹ اور انڈے ہیںکہ اس کے افراد میں زیادہ فرق نہیں ہے اس کے چھوٹے بڑے دینے سے جھگڑا نہیں ہوتا۔اسی طرح جو چیزیں ہاتھ سے اور گز سے ناپ کر بیچتے ہیں جیسے کپڑا وغیرہ تو اس کو بیع سلم کے ذریعہ بیچ سکتے ہیں۔
وجہ کیلی، وزنی ،عددی اور ذراعی میں بیع سلم کرنا اس لئے جائز ہے کہ ان کی صفات اور وزن متعین کر دیئے جائیں تو کافی حد تک تعین ہو جاتا ہے اور جھگڑا نہیں ہوگا اس لئے انہیں چیزوں میں سلم جائز ہے۔اور جن چیزوں کو صفات کے ذریعہ متعین کرنا نا ممکن ہو ان کی بیع سلم جائز نہیں
حاشیہ : (الف) مت بیچو وہ چیز جو تمہارے پاس نہ ہو (ب) اے ایمان والو جب تم متعین مدت تک دین کا معاملہ کرو تو اس کو لکھ لیا کرو (ج) آپۖ مدینہ تشریف لائے اور لوگ پھل میں دو سال اور تین سال کے لئے بیع سلم کرتے تو آپۖ نے فرمایا جو کسی چیز میں بیع سلم کرے تو کیل معلوم ہو ، وزن معلوم ہو اور مدت معلوم ہو۔