Deobandi Books

شرح ثمیری شرح اردو قدوری جلد 2 - یونیکوڈ

267 - 457
( کتاب المضاربة )
]١٣٣٩[(١) المضاربة عقد علی الشرکة فی الربح بمال من احد الشریکین وعمل من الآخر ]١٣٤٠[(٢) ولا تصح المضاربة الا بالمال الذی بینا ان الشرکة تصح بہ۔ 

(  کتاب المضاربة  )
ضروری نوٹ  مضاربت ضرب فی الارض سے مشتق ہے۔چونکہ مضارب زمین میں سفر کرتا ہے اور تجارت کرکے نفع کماتا ہے اس لئے اس تجارت کو مضاربت کہتے ہیں۔اس تجارت میں ایک آدمی کی جانب سے مال ہوتا ہے جس کو رأس المال کہتے ہیں۔اور دوسرے کی جانب سے کام ہوتا ہے جس سے وہ نفع کماتا ہے اور نفع میں دونوں شریک ہوتے ہیں۔اس تجارت کا ثبوت اس حدیث سے ہے۔عن عروة یعنی ابن الجعد البارقی قال اعطاہ النبی ۖ دینارا یشتری بہ اضحیة او شاة فاشتری شاتین فباع احداھما بدینار فاتاہ بشاة ودینار فدعا لہ بالبرکة فی بیعہ فکان لو اشتری ترابا لربح فیہ (الف) (ابو داؤد شریف ، باب فی المضارب یخالف ص ١٢٤ نمبر ٣٣٨٤) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ مضاربت کی تجارت کر سکتا ہے۔
]١٣٣٩[(١)مضاربت شرکت کا عقد ہے نفع میں شریکین میں سے ایک کے مال اور دوسرے کے عمل کے ساتھ۔  
تشریح  مضاربت کی صورت یہ ہوتی ہے کہ ایک کی جانب سے مال ہو اور دوسرے کی جانب سے کام اور عمل ہواور نفع میں دونوں شریک ہوں۔  وجہ  (١) اوپر کی حدیث اس کا ثبوت ہے (٢) اثر میں ہے ۔قال خرج عبد اللہ و عبید اللہ ابنا عمر بن الخطاب فی جیش الی العراق فلما قفلا مرا علی ابی موسہ الاشعری وھو امیر البصرة فرحب بھما وسھل ثم قال لو اقدر لکما علی امرانفعکما بہ لفعلت ثم قال بلی ھھنا مال من مال اللہ ارید ان ابعث بہ الی امیر المؤمنین فاسلفکماہ فتبتاعان بہ متاعا من متاع العراق ثم تبیعانہ بالمدینة فتؤدیان رأس المال الی امیر المؤمنین فیکون لکما الربح فقال وددنا ففعل (ب) موطا امام مالک ، کتاب القراض ماجاء فی القراض ص ٦١٧ دار قطنی ،کتاب البیوع ج ثالث ص ٥٣ نمبر ٣٠١٣ ) اس اثر سے معلوم ہوا کہ مضاربت جائز ہے،اور یہ بھی معلوم ہوا کہ ایک جانب سے مال ہو اور دوسری جانب سے عمل ہو۔
]١٣٤٠[(٢)اور نہیں صحیح ہے مضاربت مگر اس مال سے جن کو میں نے شرکت میں بیان کیا کہ ان سے درست ہے۔  

حاشیہ  :  (الف)ابن جعد بارقی فرماتے ہیں کہ ان کو حضورۖ نے قربانی کی بکری خریدنے کے لئے ایک دینار دیا یا بکری خریدنے کے لئے دیا تو انہوں نے دو بکریاں خریدی۔پھر ان میں سے ایک کو ایک دینار میں بیچ دی۔پس حضورۖ کے پاس ایک بکری اور ایک دینار لے کر آئے۔پس آپۖ نے ان کو بیع میں برکت کی دعا دی۔پس ایسا ہوتا کہ وہ مٹی بھی خریدتے تو اس میں نفع ہوتا(ب) حضرت عمر کے دونوں بیٹے عبد اللہ اور عبید اللہ عراق کے لشکر میں گئے،پس جب ابو موسی اشعری کے پاس واپس آئے جبکہ وہ بصرہ کے حاکم تھے تو دونوں کو مرحبا کہا اور سہولت دی۔پھر فرمایا کہ اگر میں تم دونوں کو نفع پہنچا سکتا تو ضرور پہنچاتا۔پھر فرمایا ہاں ! یہاں اللہ کا مال ہے میں چاہتا ہوں کہ امیر المؤمنین کو روانہ کروں ۔پس تم دونوں کو دیتا ہوں،تم دونوں اس سے عراق کا سامان خرید لو پھر اس کو مدینہ میں بیچنا اور اصل مال امیر المؤمنین کو ادا کر دینا تو تم دونوں کو نفع ہو جائے گا۔دونوں کہنے لگے ہم ایسا چاہتے ہیں، پس ایسا کیا۔

Flag Counter