( کتاب الغصب )
]١٥٥١[(١)ومن غصب شیئا مما لہ مثل فھلک فی یدہ فعلیہ ضمان مثلہ وان کان مما
ضروری نوٹ غصب کے معنی ہیں زبردستی کسی کے مال کو لے لینا،یہ حرام ہے۔اس کا ثبوت اس آیت میں ہے ولا تأکلوا اموالکم بینکم بالباطل (الف)(آیت ١٨٨ سورة البقرة ٢)اس آیت میں کہا گیا ہے کہ کسی کے مال کو باطل طریقے سے مت کھاؤ۔اس میں غصب بھی شامل ہے (٢) حدیث میں ہے عن یزید انہ سمع النبی ۖ من ایأخذ احدکم متاع اخیہ لاعبا و لا جادا ... ومن اخذ عصا اخیہ فلیردھا (ب) (ابو داؤد شریف ، باب ما یأخذ الشیء من مزاح، کتاب الادب ج ثانی ص ٣٣٥ نمبر ٥٠٠٣ترمذی شریف، باب ما جاء لا یحل لمسلم ان یروع مسلما ج ثانی ص ٣٩ نمبر ٢١٦٠) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ کسی کو کسی کی چیز غصب نہیں کرنا چاہئے۔اور اگر کر لیا تو اس کو واپس دینا چاہئے۔
]١٥٥١[(١) اگر کسی نے غصب کیا کسی چیز کو جس کا مثل ہے،پس ہلاک ہو گئی اس کے ہاتھ میں تو اس پر اس کے مثل ضمان ہے۔اور اگر اس میں سے ہے جس کا مثل نہ ہو تو اس پر اس کی قیمت ہے۔
تشریح اگر کسی نے کسی چیز کو غصب کیا تو یہ حرام ہے۔ تاہم اس کو وہی چیز واپس کر دینا چاہئے۔اور اگر وہ چیز ہلاک ہو گئی تو اگر اس کا مثل ہے تو اس کا مثل واپس کر نا چاہئے۔مثلا ایک کوینٹل گیہوں غصب کیا اور وہ ہلاک ہو گیا تو یہ مثلی چیز ہے اس لئے ایک کوینٹل گیہوں واپس کر دے۔ اور اگر وہ چیز مثلی نہ ہو مثلا گائے غصب کی اور وہ ہلاک ہو گئی تو اب گائے کی قیمت واپس کرے گا۔کیونکہ گائے کا مثل گائے نہیں ہوتی۔وہ ذوات القیم ہے اس لئے اس کی قیمت لازم ہوگی۔
دلائل : عین مغصوب کو واپس کرنے کی دلیل اوپر کی حدیث ہے۔ومن اخذ عصا اخیہ فلیردھا (ابو داؤد شریف ،نمبر ٥٠٠٣)کہ کسی نے بھائی کی لاٹھی غصب کی تو وہی چیز واپس کرنی چاہئے (٢) دوسری حدیث میں ہے عن سمرة بن جندب قال قال النبی ۖ علی الید ما اخذت حتی تؤدیہ (ج) (سنن للبیہقی ، باب رد المغصوب اذا کان باقیا، ج سادس ،ص ١٥٨،نمبر١١٥١٩) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ عین چیز موجود ہو تو اس کو واپس کرنا چاہئے۔
اور چیز مثلی ہو تو مثل واپس کرنے کی دلیل یہ آیت ہے۔ فمن اعتدی علیکم فاعتدوا علیہ بمثل ما اعتدی علیکم (د)(آیت ١٩٤ سورة البقرة٢) اس آیت میں ہے کہ جتنا ظلم کیا گیا ہو اتنا تم کر سکتے ہو۔اسی پر قیاس کرکے جتنا غصب کرکے ہلاک کیا ہو اس کے مثل دینا واجب ہوگا۔حدیث میں ہے کہ حضرت عائشہ نے پیالہ توڑا تو حضورۖ نے اس کے مثل پیالہ مالک کو دیا۔ حدیث یہ ہے عن انس ان النبی ۖ کان عند بعض نسائہ فارسلت احدی امھات المؤمنین مع خادم بقصعة فیھا طعام فضربت بیدھا فکسرت
حاشیہ : (الف) تمہارے مال آپس میں باطل طریقے پر مت کھاؤ (ب) آپۖ نے فرمایا تم میں سے کوئی بھائی کا سامان مذاق کے طور پر یا حقیقت کے طور پر نہ لے ... اور جس نے اپنے بھائی کی لاٹھی کو لیا اس کو اسے واپس کرنا چاہئے(ج) آپۖ نے فرمایا جو کچھ لیا وہ تمہارے ہاتھ پر ہے یہاں تک کہ اس کو ادا کر دو (د) جس نے تم پر ظلم کیا تو تم اسی کے مثل ظلم کرو یعنی بدلہ لو جتنا تم پر ظلم کیا۔