( کتاب اللقطة )
]١٦٢٠[(١)اللقطة امانة فی ید الملتقط اذا اشھد الملتقط انہ یأخذھا لیحفظھا ویردھا علی صاحبھا۔
( کتاب اللقطة )
ضروری نوٹ کسی گرے ہوئے مال کو اٹھا لینے کو لقطہ کہتے ہیں۔اس کا ثبوت اس حدیث میں ہے۔سمعت سوید بن غفلة قال لقیت ابی بن کعب فقال اصبت صرة فیھا مائة دینار فاتیت النبی ۖ فقال عرفھا حولا فعرفتھا فلم اجد من یعرفھا ثم اتیتہ فقال عرفھا حولا فعرفتھا فلم اجد ثم اتیتہ ثلاثا فقال احفظھا وعائھا وعددھا ووکاء ھا فان جاء صاحبھا والا فاستمتع بھا فاستمتعت فلقیتہ بعد بمکة فقال لا ادری ثلاثة احوال او حولا واحدا (الف) (بخاری شریف ، باب اذا اخبر رب اللقطة بالعلامة دفع الیہ ص ٣٢٧ نمبر ٢٤٢٦ مسلم شریف ، باب معرفة العفاص والوکاء وحکم ضالة الغنم والابل ص ٧٨ نمبر ١٧٢٣) اس حدیث سے لقطہ کا حکم بھی معلوم ہوا اور اس کا ثبوت بھی۔
]١٦٢٠[(١)لقطہ امانت ہے اٹھانے والے کے ہاتھ میں جبکہ اٹھانے والے نے گواہ بنایا کہ اس کو اٹھایا تاکہ اس کی حفاظت کرے اور اس کو اس کے مالک کے پاس لوٹادے۔
تشریح لقطے کا مال اٹھایا اور گواہ بنایا کہ اس کو حفاظت کے لئے اٹھا رہا ہوں تو وہ مال اس کے ہاتھ میں امانت ہوگا۔اور اگر حفاظت کرنے اور مالک کی طرف لوٹانے پر گواہ نہیں بنایا تو بعض صورتوں میں وہ ضمانت کا مال ہو جائے گا۔
وجہ حفاظت پر گواہ بنانے کے لئے یہ حدیث ہے ۔عن عیاض بن حمار قال قال رسول اللہ من وجد لقطة فلیشھد ذا عدل او ذوی عدل ولا یکتم ولا یغیب فان وجد صاحبھا فلیردھا علیہ والا فھو مال اللہ یؤتیہ من یشاء (ب)(ابو داؤد شریف، باب التعریف باللقطة ص ٢٤٥ نمبر ١٧٠٩ ابن ماجہ شریف، باب اللقطة ص ٣٥٩ نمبر ٢٥٠٥) اس حدیث میں لقطے پر گواہ بنانے کا حکم ہے (٢)ضروری نوٹ کی حدیث میں عرفھا حولا سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ لقطہ اٹھانے پر گواہ بنانا چاہئے۔
اور لقطہ ملتقط کے ہاتھ میں امانت ہے اس کی دلیل یہ حدیث ہے۔سمع زید بن خالد الجہنی صاحب رسول اللہ ۖ یقول سئل رسول اللہ عن اللقطة الذھب او الورق فقال اعرف وکاء ھاوعفاصھا ثم عرفھا سنة فان لم تعرف فاستنفقھا
حاشیہ : (الف) حضرت ابی بن کعب فرماتے ہیں کہ میں نے ایک تھیلی پائی اس میں سو دینار تھے۔ پس میں حضورۖ کے پاس آیا تو آپۖ نے فرمایا ایک سال اس کی تشہیر کرو۔ تو میں نے اس کی تشہیر کی۔پس اس کا مالک نہیں ملا۔میں پھر آیا فرمایا ایک سال اس کی تشہیر کرو۔پس میں نے اس کی تشہیر کی۔پس نہیں پایا ۔پھر تیسری مرتبہ آیا تو آپۖ نے فرمایا اس کا برتن یاد رکھو اور اس کی عدد یا د رکھواور اس کی بندھن یاد رکھو۔پس اگر اس کا مالک آجائے تو ٹھیک ہے ورنہ اس سے فائدہ اٹھا لو۔پس میں نے فائدہ اٹھا لیا ۔پھر ان سے مکہ میں ملاقات کی تو مجھے یاد نہیں ہے کہ تین سال یا ایک سال کہا(ب) آپۖ نے فرمایا کسی نے لقطہ پایا تو عادل آدمی کو گواہ بنانا چاہئے اور چھپانا نہیں چاہئے اور غائب نہیں کرنا چاہئے۔پس اگر اس کا مالک آئے تو اس پر لوٹا دینا چاہئے ورنہ تو وہ اللہ کا مال ہے جس کو چاہے دے۔