( کتاب الودیعة )
]١٥٧٦[(١)الودیعة امانة فی ید المودع اذا ھلکت فی یدہ لم یضمنھا]١٥٧٧[(٢) وللمودع ان یحفظھا بنفسہ وبمن فی عیالہ۔
( کتاب الودیعة )
ضروری نوٹ ودیعت کے معنی امانت رکھنا ہے۔کوئی اپنا سامان کسی کے پاس حفاظت کے لئے رکھ دے تو اس کو امانت رکھنا کہتے ہیں۔اس کا ثبوت اس آیت میں ہے۔ان اللہ یأمرکم ان تودوا الامانات الی اھلھا (الف) (آیت ٥٨ سورة النساء ٤) اس آیت میں امانت کو واپس لوٹانے کی تاکید کی گئی ہے۔حدیث میں ہے۔عن عمر بن شعیب عن ابیہ عن جدہ قال قال رسول اللہ ۖ من اودع ودیعة فلا ضمان علیہ (ب) (ابن ماجہ شریف ، باب الودیعة ص ٣٤٣ نمبر ٢٤٠١ دار قطنی ، کتاب البیوع ج ثالث ص ٣٦ نمبر ٢٩٣٨) اس حدیث میں ہے کہ کوئی چیز امانت پر رکھے تو امانت رکھنے والے پر ضمان نہیں ہے۔اس سے امانت کا ثبوت بھی ہوا اور اس کا حکم بھی معلوم ہوا کہ بغیر تعدی کے ہلاک ہونے پر ضمان نہیں ہے۔
اس باب میں تین الفاظ ہیں (١) امانت رکھنے والا جس کو مودع کہتے ہیں (دال کے کسرہ کے ساتھ)(٢) جس کے پاس امانت رکھی جائے اس کو مودع کہتے ہیں (دال کے فتحہ کے ساتھ اسم مفعول کا صیغہ) (٣)جو چیز امانت رکھی جائے اس کو ودیعت کہتے ہیں۔
]١٥٧٦[(١) ودیعت امانت ہوتی ہے امانت رکھنے والے کے ہاتھ میں۔اگر اس کے ہاتھ میں ہلاک ہو جائے تو اس کا ضامن نہیں ہوگا تشریح جس کے ہاتھ میں امانت رکھی گئی ہے وہ اس کے ہاتھ میں امانت ہے ۔اور امانت کا قاعدہ یہ ہے کہ اگر بغیر تعدی کے ہلاک ہو جائے تو اس پر اس کا تاوان نہیں ہے۔
وجہ (١) ابن ماجہ کی حدیث اوپر گزری من اودع ودیعة فلا ضمان علیہ (ابن ماجہ شریف ،نمبر ٢٤٠١)(٢) دار قطنی میں ہے عن عمرو بن شعیب عن ابیہ عن جدہ عن النبی ۖ قال لیس علی المستعیر غیر المغل ضمان ولا علی المستودع غیر المغل ضمان (ج)(دار قطنی ، کتاب البیوع ج ثالث ص ٣٦ نمبر ٢٩٣٩) (٤) قال عمر بن الخطاب العاریة بمنزلة الودیعة ولا ضمان فیھا الا ان یتعدی (د) (مصنف عبد الرزاق ، باب العاریة، ج ثامن، ص ١٧٩ نمبر ١٤٧٨٥) اس حدیث اور اوپر کے اثر سے معلوم ہوا کہ امانت بغیر تعدی کے ہلاک ہو جائے تو امین پر ضمان نہیں ہے۔
]١٥٧٧[(٢)امانت رکھنے والے کے لئے جائز ہے کہ خود حفاظت کرے اور ان سے حفاظت کرائے جو اس کے عیال میں ہیں۔
تشریح امانت کے مال کی خود حفاظت کر سکتا ہے اور ان لوگوں سے بھی حفاظت کروا سکتا ہے جو اس کے بال بچے ہیںیا جس کی وہ کفالت کرتا
حاشیہ : (الف)اللہ تم کو حکم دیتے ہیں کہ امانت امانت والوں کو ادا کرے (ب) آپۖ نے فرمایا جس نے امانت رکھی اس پر ضمان نہیں ہے(ج) آپۖ نے فرمایا عاریت رکھنے والے پر جو زیادتی نہ کرتا ہو ضمان نہیں ہے،اور امانت رکھنے والے پر جو زیادتی نہ کرتا ہو ضمان نہیں ہے (د) حضرت عمر بن خطاب نے فرمایا عاریت ودیعت کی طرح ہے اور اس میں ضمان نہیں ہے مگر یہ کہ تعدی کرے۔