( باب المرابحة والتولیة )
]٩١٥[(١) المرابحة نقل ما ملکہ بالعقد الاول بالثمن الاول مع زیادة ربح]٩١٦[ (٢) والتولیة نقل ما ملکہ بالعقد الاول بالثمن الاول من غیر زیادة ربح۔
( باب المرابحة والتولیة )
ضروری نوٹ مرابحہ : کا مطلب یہ ہے کہ جتنے میں خریدا بائع مشتری کو صاف بتائے کہ میں نے مثلا دس پونڈ میں یہ مبیع خریدی ہے اور دو پونڈ نفع لیکر بارہ پونڈ میں آپ کے ہاتھ بیچتا ہوں۔ اس میں دو پونڈ نفع لیا اس لئے اس کو مرابحہ کہتے ہیں۔اگر بائع نفع لے لیکن مشتری کو یہ نہ بتائے کہ کتنے میں خریدا ہے تو یہ عام بیع ہے۔اس کو مرابحہ نہیں کہیںگے۔مرابحہ میں پہلی قیمت بتانا ضروری ہے۔یہ اس لئے ہوتا ہے تاکہ مشتری کو اعتماد ہو اور دھوکہ نہ ہو۔ اس کا ثبوت اس اثر میں ہے ۔رایت علی علی ازارا غلیظا قال اشتریت بخمسة دراھم فمن اربحنی فیہ درھما بعتہ ایاہ (سنن للبیھقی، باب المرابحة ج خامس ص ٥٣٨،نمبر١٠٧٩٤ ) اس اثر میں پانچ درہم میں ازار خریدی تھی اور ایک درہم مرابحہ پر حضرت علی بیچنا چاہتے تھے۔جس سے بیع مرابحہ کا ثبوت ہوا ۔
تولیہ : کا مطلب یہ ہے کہ بائع مشتری کو بتائے کہ میں نے مثلا دس پونڈ میں یہ مبیع خریدی ہے اور دس ہی پونڈ میں بیچتا ہوں۔ جتنے میں خریدی اتنے ہی میں مبیع کا ولی بنا دینے کو تولیہ کہتے ہیں۔ اگر نہیں بتایا کہ کتنے میں خریدی تو یہ تولیہ نہیں ہے ،عام بیع ہے۔اس بیع کا ثبوت اس حدیث میں ہے قالت عائشة فبینما نحن یوما جلوس فی بیت ابی بکر ... قال ابو بکر فخذ بابی انت یا رسول اللہ احدی راحلتی ھاتین قال رسول اللہ بالثمن (الف) (بخاری شریف ، باب ہجرة النبی ۖ واصحابہ الی المدینة ص ٥٥٣ نمبر ٣٩٠٥بخاری شریف ، باب اذا اشتری متاعا او دابة فوضعہ عند البائع ص ٢٨٧ نمبر ٢١٣٨)اس حدیث میں حضورۖ نے ابو بکر سے فرمایا کہ جتنے میں اونٹنی خریدی ہے اتنے ہی میں دیدے۔اس لئے آپۖ نے فرمایا بالثمن، یعنی بالثمن الاول،اس لئے اس سے بیع تولیہ کا ثبوت ہوا۔
]٩١٥[(١)بیع مرابحہ منتقل کرنا ہے جس چیز کا مالک بنا عقد اول میں ثمن اول سے نفع کی زیادتی کے ساتھ۔
تشریح پہلی بیع میں جس مبیع کا جتنی قیمت سے مالک بنا ہے اسی قیمت پر کچھ نفع لیکر بیچنے کو مرابحہ کہتے ہیں۔
وجہ مرابحہ ربح سے مشتق ہے۔جس کے معنی نفع لینا ہے۔اس لئے پہلی قیمت پر نفع لے گا۔اس لئے اس کو مرابحہ کہتے ہیں۔
]٩١٦[(٢)اور بیع تولیہ وہ منتقل کرنا ہے جس کا مالک بنا عقد اول سے ثمن اول کے ساتھ بغیر نفع کی زیادتی کے۔
تشریح جتنے میں پہلی بیع میں خریدا ہے اتنی قیمت میں بیچ دینے کو تولیہ کہتے ہیں۔
وجہ چونکہ پہلی ہی قیمت میں مشتری کو مبیع کا ولی بنانا ہے اور اس پر کچھ نفع نہیں لینا ہے اس لئے اس بیع کو تولیہ کہتے ہیں(٢) مرابحہ اور تولیہ دونوں بیوع کی دلیل ضروری نوٹ میں گزر گئی (بخاری شریف نمبر ٣٩٠٥سنن بیہقی،نمبر١٠٧٩٤)
حاشیہ : (الف) حضرت ابو بکر نے فرمایا میرے ماں باپ آپ پر فدا ہوں میری ان دو اونٹنیوں میں سے ایک آپ لے لیں۔ آپۖ نے فرمایا پہلی قیمت سے لوں گا۔