Deobandi Books

شرح ثمیری شرح اردو قدوری جلد 2 - یونیکوڈ

182 - 457
( کتاب الاجارة )
]١١٥٦[(١) الاجارة عقد علی المنافع بعوض]١١٥٧[ (٢) ولا تصح حتی تکون 

(  کتاب الاجارة  )
ضروری نوٹ  ایک جانب سے منفعت ہو اور دوسری جانب کوئی عین چیز ہو مثلا پونڈ،درہم یا کیلی،وزنی چیز ہو تو اس کو اجارہ کہتے ہیں۔اجارہ میں منفعت معدوم ہوتی ہے لیکن ضرورت کی وجہ سے اور احادیث کی وجہ سے کچھ شرائط کے ساتھ اس کو موجود قرار دی گئی اور اجارہ جائز قرار دیا گیا۔اس کا ثبوت اس آیت میں ہے۔قال انی ارید ان انکحک احدی ابنتی ھاتین علی ان تأجرنی ثمانی حجج فان اتممت عشرا فمن عندک (الف) (آیت ٢٧ سورة القصص ٢٨) اس آیت میں حضرت موسی علیہ السلام کی شادی آٹھ سال تک بکری چرانے کی اجرت پر کی گئی ہے (٢) اور حدیث میں اس کا ثبوت ہے۔عن ابی ھریرة عن النبی ۖ قال قال اللہ ثلاثة انا خصمھم یوم القیامة رجل اعطی بی ثم غدر ورجل باع حرا فاکل ثمنہ ورجل استأجر اجیرا فاستوفی منہ ولم یعطہ اجرہ (ب) (بخاری شریف ، باب اثم من منع اجر الاجیر ص ٣٠٢ نمبر ٢٢٧٠) اس حدیث میں ہے کہ اجیر سے کام کروا لیا اور اس کی اجرت نہیں دی تو اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ قیامت میں اس کا خصم ہوںگا۔جس سے ثابت ہوا کہ اجارہ جائز ہے۔ 
]١١٥٦[(١)اجارہ عقد ہے منافع پر عوض کے بدلے۔  
تشریح  اجارہ کا مطلب یہ ہے کہ ایک جانب منفعت ہو اور دوسری جانب کوئی عین شیء ہو مثلا درہم ، دینار ، گیہوں یاکوئی کیلی یا وزنی چیز ہو۔اس کو عقد اجارہ کہتے ہیں۔  
وجہ  اس کے جواز کی وجہ اوپر کی آیت اور حدیث ہے۔
]١١٥٧[(٢)نہیں صحیح ہے اجارہ یہاں تک کہ منافع معلوم ہوں اور اجرت معلوم ہو۔  
تشریح  منافع کتنے ہوںگے ،اس کی مقدار کیا ہوگی وہ بھی معلوم ہو اور اس کے بدلے اجرت کتنی ہوگی وہ بھی معلوم ہو تب اجارہ صحیح ہوگا۔  
وجہ  اگر منافع معلوم نہ ہوں اور اجرت معلوم نہ ہو تو جھگڑا ہوگا اس لئے دونوں معلوم ہونا ضروری ہے (٢) اوپر آیت میں  ثمانی حجج  ہے۔جس سے منافع معلوم ہوئے اور  انکحک  ہے۔جس سے عوض بھی معلوم ہوا۔اس سے اشارہ ہوا کہ دونوں معلوم ہوں (٣) حدیث میں ہے  عن ابی ھریرة عن النبی ۖ ... ومن استأجر اجیرا فلیعلمہ اجرہ (ج) (سنن للبیھقی ، باب لا تجوز الاجارة حتی تکون معلومة وتکون الاجرة معلومة،ج سادس ،ص ١٩٨،نمبر١١٦٥١ مصنف عبد الرزاق ، باب الرجل یقول بع ھذا بکذا فما زاد فلک وکیف ان باعہ بدین ج ثامن 

حاشیہ  :  (الف) حضرت شعیب  نے فرمایا میں چاہتا ہوں کہ میری دونوں بیٹیوں میں سے ایک کا آپ سے نکاح کر دوں اس بدلے میں کہ آٹھ سال تک اجرت کا کام کریں۔ پس اگر دس پورے کریں تو آپۖ کے پاس سے ہوگا (ب) حضور فرماتے ہیں کہ اللہ تعالی ے فرمایا کہ قیامت کے دن تین آدمیوں کا میں مدعی ہوں گا۔ایک آدمی جس نے میری وجہ سے عہد کیا پھر دھوکہ دیا۔دوسرا آدمی جس نے آزاد کو بیچا اور اس کی قیمت کھائی اور تیسرا آدمی جس نے کسی مزدور کواجرت پر رکھا اور اس سے پورا کام لیا پھر اس کو اجرت نہیں دی(ج) آپۖ سے روایت ہے کہ ... کسی نے اجیر کو اجرت پر لیا تو اس کی اجرت کتنی ہے اس کی اطلاع دینی چاہئے۔

Flag Counter