Deobandi Books

شرح ثمیری شرح اردو قدوری جلد 2 - یونیکوڈ

327 - 457
( کتاب الصلح )
]١٤٦٠[(١)الصلح علی ثلثة اضرب صلح مع اقرار و صلح مع سکوت وھو ان لا یقر المدعی علیہ ولا ینکر وصلح مع انکار وکل ذلک جائز۔

(  کتاب الصلح  )
ضروری نوٹ  صلح کے معنی مصالحت کے ہیں۔یہ مخاصمت کی ضد ہے۔ صلح جائز ہونے کی دلیل یہ آیت ہے۔وان امرأة خافت من بعلھا نشوزا او اعراضا فلا جناح علیھما ان یصلحا بینھما صلحا والصلح خیر (الف) (آیت ١٢٨ سورة النساء ٤) اور حدیث ہے۔ عن براء بن عازب قال صالح النبی المشرکین یوم الحدیبیة علی ثلاثة اشیاء (ب) (بخاری شریف ، باب الصلح مع المشرکین ص ٣٧١ نمبر ٢٧٠٠) اس سے بھی پتہ چلا کہ صلح جائز ہے۔اور ابو داؤد میں ہے۔عن ابی ھریرة قال قال رسول اللہ ۖ الصلح جائزبین المسلمین،زاد احمد الا صلحا حرم حلالا او احل حراما(ج) (ابو داؤد شریف، باب فی الصلح ص ١٥٨ نمبر ٣٥٩٤) اس حدیث سے بھی صلح کے جواز کا پتہ چلا۔
]١٤٦٠[(١)صلح تین قسم پر ہے ۔اقرار کے ساتھ صلح اور چپ رہنے کے ساتھ صلح،وہ یہ ہے کہ مدعی علیہ نہ اقرار کرے اور نہ انکار کرے اور انکار کے ساتھ صلح۔اور یہ تینوں صورتیں جائز ہیں۔  
تشریح  صلح کی تین صورتیں ہیں،پہلی صورت یہ ہے کہ مدعی نے دعوی کیا کہ تم پر میرا ایک ہزار درہم ہیں۔مدعی علیہ نے اقرار کیا کہ ہاں ہیں ۔ لیکن ایک ہزار کے بدلے میں ایک گائے دے دیتا ہوں اس پر صلح کر لیں اور مدعی نے مان لیا تو یہ اقرار کے ساتھ صلح ہوئی۔یا یوں کہا کہ ایک ہزار درہم ہیں لیکن آٹھ سو پر صلح کر لیں اور دوسو درہم چھوڑ دیں تو یہ بھی اقرار کے ساتھ صلح ہے اور بجنسہ صلح ہے۔دوسری صورت یہ ہے کہ مدعی دعوی کرے کہ تم پر میرا ایک ہزار درہم ہیں،مدعی علیہ نے اس پر نہ انکار کیا اور نہ اقرار کیا خاموش رہا،پھر کہا کہ اس کے بدلے میں گائے دیتا ہوں اس پر صلح کر لیں اس پر مدعی نے مان لیا۔یہ صلح مع السکوت ہوئی۔اور تیسری صورت یہ ہے کہ مدعی نے دعوی کیا کہ تم پر میرا ایک ہزار درہم ہیں ۔مدعی علیہ نے انکار کیا کہ آپ کا مجھ پر کچھ نہیں ہے۔بعد میں کہا کہ چلو اس کے بدلے میں ایک گائے دے دیتا ہوں ۔مدعی نے مان لیا اس کو صلح مع انکار کہتے ہیں کہ انکار کرنے کے بعد صلح کر لے۔یہ تینوں صورتیں جائز ہے۔  
وجہ  اوپر والی حدیث الصلح جائز بین المسلمین  سے معلوم ہوا کہ صلح جائز ہے اور یہ حدیث مطلق ہے اس لئے اس میں تینوں قسم کی صلح داخل ہیں۔یعنی حدیث تینوں قسم کی صلح پر دال ہے (٢) صلح مع السکوت اور صلح مع انکار کا مطلب یہ ہوگا کہ یہ چیزآپ کی ہے تو نہیں لیکن میں دعوی کے جھمیلے میں نہیں پڑنا چاہتا ۔اس لئے مال دے کر اپنی جان اور عزت بچانا چاہتا ہوں۔اور مال مدعی علیہ کا ہے اس لئے وہ اس کو خرچ کر 

حاشیہ  :  (الف) اگر کوئی عورت اپنے شوہر سے نافرمانی یا اعراض کا خوف کرے تو ان دونوں پر کوئی حرج نہیں ہے کہ آپس میں صلح کرین۔اور صلح خیر ہے (ب) حضورۖ صلح حدیبیہ کے دن مشرکین سے تین باتوں پر صلح کی(ج) آپۖ نے فرمایا مسلمانوں کے درمیان صلح جائز ہے مگر وہ صلح جو حلال کو حرام کردے یا حرام کو حلال کر دے۔

Flag Counter