( باب خیار العیب )
]٨٧١[(١) اذا اطلع المشتری علی عیب فی المبیع فھو بالخیار ان شاء اخذہ بجمیع الثمن وان شاء ردہ ولیس لہ ان یمسکہ ویأخذ النقصان۔
( باب خیار العیب )
ضروری نوٹ مبیع میں عیب ہو جائے جس کے ماتحت مبیع کو واپس کرنے کا اختیار ہو اس کو خیار عیب کہتے ہیں۔اس کا ثبوت اس حدیث میں ہے عن عائشة ان رجلا ابتاع غلاما فاقام عندہ ماشاء اللہ ان یقیم ثم وجد بہ عیبا فخاصمہ الی النبی ۖ فردہ علیہ فقال الرجل یا رسول اللہ قد استغل غلامی فقال رسول اللہ ۖ الخراج بالضمان (الف) (ابو داؤد شریف، باب فیمن اشتری عبدا فاستعملہ ثم وجد بہ عیبا ج ثانی ص ١٣٩ نمبر ٣٥١٠ ابن ماجہ شریف، باب الخراج بالضمان ص ٣٢١ نمبر ٢٢٤٣ سنن للبیھقی ، باب المشتری یجد بما اشتراہ عیبا وقد استعملہ زمانا ج خامس ص ٥٢٦، نمبر١٠٧٤٢) اس حدیث میں اس کا ثبوت ہے کہ غلام میں عیب پایا تو اس کو بائع کی طرف واپس کر دیا۔
]٨٧١[(١)اگر مشتری مبیع میں عیب پر مطلع ہو گیا تو اس کو اختیار ہے اگر چاہے تو پورے ثمن سے اس کو لے اور اگر چاہے تو مبیع کو واپس کردے۔لیکن مشتری کے لئے جائز نہیں ہے کہ مبیع کو روک لے اور نقصان لے ۔
تشریح مشتری نے مبیع پر قبضہ کیا یہ سمجھ کر کہ اس میں عیب نہیں ہے بعد میں عیب کا پتہ چلا تو اس کے لئے خیار عیب کے ماتحت یہ اختیار ہے کہ پوری مبیع واپس کردے۔لیکن یہ نہیں ہوگا کہ مبیع رکھ لے اور عیب کا جو نقصان ہے وہ نقصان بائع سے واپس لے لے۔واپس اس وقت کر سکتا ہے جب خریدتے وقت اس عیب کو دیکھا نہ ہو اور اس عیب پر راضی نہ ہوا ہو۔دوسری شرط یہ ہے کہ ایسا عیب ہو جس کو تجار عیب کہتے ہیں تب عیب کے ماتحت مبیع واپس کر سکتا ہے۔
وجہ (١) مبیع واپس کرنے کی وجہ یہ ہے کہ مشتری کا حق ضائع ہوا اس لئے مبیع واپس کرکے اپنا پورا حق وصول کرے گا (٢) اوپر حدیث میں تھا کہ عیب کے ماتحت صحابی نے غلام واپس کیا جس سے پتہ چلا کہ عیب کے ماتحت مبیع واپس کر سکتا ہے عن عائشة ان رجلا ابتاع غلاما فاقام عندہ ماشاء اللہ ان یقیم ثم وجد بہ عیبا فخاصمہ الی النبی ۖ فردہ علیہ(ب)(ابوداؤد شریف، باب فیمن اشتری عبدا فاستعملہ ثم وجد بہ عیبا ج ثانی ص ١٣٩ نمبر ٣٥١٠) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ عیب کے ماتحت مبیع واپس کر سکتا ہے ۔اور یہ بھی معلوم ہوا کہ پوری مبیع واپس کرے۔مبیع میں کوئی اضافہ نہ ہوا ہو تو نقصان وصول نہ کرے۔اس اثر سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ پوری مبیع واپس کرے گا۔
حاشیہ : (الف) حضرت عائشہ سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے غلام خریدا ۔پس اس کے پاس جب تک اللہ نے چاہا ٹھہرا رہا پھر اس میں عیب پایا تو حضور کے پاس جھگڑا لے گیا تو غلام کو بائع پر واپس کر دیا گیا۔ بائع نے فرمایا حضور اس نے میرے غلام کو قرض میں مبتلا کر دیا تو آپۖ نے فرمایا ضمان کی وجہ سے خراج لازم ہوتا ہے (ب) حضرت عائشہ سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے غلام خریدا ۔پس اس کے پاس جب تک اللہ نے چاہا ٹھہرا رہا پھر اس میں عیب پایا تو حضور کے پاس جھگڑا لے گیا تو غلام کو بائع پر واپس کر دیا گیا۔