Deobandi Books

شرح ثمیری شرح اردو قدوری جلد 2 - یونیکوڈ

437 - 457
( کتاب الماذون )
]١٦٧٣[(١)اذا اذن المولی لعبدہ اذنا عاما جاز تصرفہ فی سائر التجارات]١٦٧٤[(٢) ولہ ان یشتری ویبیع ویرھن ویسترھن۔

(  کتاب الماذون  )
ضروری نوٹ  ایسا غلام جس کو مولی نے تجارت کرنے کی اجازت نہیں دی تھی اب اسکو تجارت کرنے کی اجازت دے دی تو اسکو ماذون غلام کہتے ہیں۔یا بچے کو ولی نے تجارت کرنے کی اجازت دے دی تو اس کو ماذون بچہ کہتے ہیں۔اس کا ثبوت حدیث میں ہے۔عن انس بن مالک قال حجم ابو طیبة النبی ۖ فامر لہ بصاع او صاعین من طعام وکلم موالیہ فخفف عن غلتہ او ضریبتہ (الف) (بخاری شریف ،باب ضریبة العبد وتعاھد ضرائب الاماء ص..... نمبر ٢٢٧٧) اس حدیث سے ثابت ہوا کہ حضرت ابو طیبہ غلام تھے اور مولی نے اس کو اجرت پر کام کرنے کی اجازت دی تھی۔اور اسی ضمن میں تجارت کی اجازت کا معاملہ بھی آئے گا ۔
اصول  اس باب کے مسائل اس اصول پر طے ہوںگے کہ مولی کو غلام کی تجارت یا کاموں سے نقصان نہ ہو۔البتہ چونکہ وہ عاقل بالغ ہے اس لئے تجارت کے درمیان کسی چیز کا اقرار کر لیا یا کوئی ایسی حرکت کی جس سے غلام پر جرمانہ لازم ہوتا ہو تو وہ اس کے آزاد ہونے کے بعد وصول کیا جائے گا تاکہ مولی کو نقصان نہ ہو (٢) یہ اصول بھی کار فرما ہوگا کہ تجارت کے درمیان معاون رواداری اور کھلانا پلانا کر سکتا ہے جو تجارتی معاشرے میں رائج ہیں۔
]١٦٧٣[(١) اگر مولی نے غلام کو عام اجازت دی تو اس کا تصرف تمام تجارتوں میں جائز ہے۔  
تشریح  مولی نے غلام کو تجارت کی اجازت دیتے وقت کسی خاص چیز کے خریدنے یا بیچنے کی تخصیص نہیں کی تو اس سے عام اجازت ہوگی اور غلام تمام تجارتوں میں آزاد ہوگا۔ یعنی تمام تجارتوں کی اہلیت حاصل ہو جائے گی۔البتہ تجارت وہی کرے جو مولی کی مرضی ہو۔  
وجہ  اثر میں ہے ۔قال سفیان ونحن نقول اذا بعثہ بمال کثیر یبتاع بہ قلنا اذن لہ فی التجارة وغر الناس منہ وان کان انما بعث بالدرھم والدرھمین فلیس بشیء (ب) (مصنف عبد الرزاق ، باب العبد المأذون ما وقت اذنہ، ج ثامن، ص ٢٨٤ ،نمبر ١٥٢٣٠) 
]١٦٧٤[(٢)اس کے لئے جائز ہے کہ خریدے اور بیچے اور رہن پر رکھنے دے اور رہن پر رکھے۔  
تشریح  چونکہ مولی کی جانب سے تمام تجارتوں کی اہلیت ہو گئی ہے اس لئے وہ آزاد آدمی کی طرح کسی بھی چیز کو خرید سکتا ہے ،اپنا مال رہن پر رکھ سکتا ہے،اور کسی کے مال کو اپنے پاس رہن پر رکھ سکتا ہے۔  

حاشیہ  :  (الف) حضرت ابو طیبہ نے حضورکو پچھنا لگایا اور آپۖ نے ان کے لئے ایک صاع یا دو صاع کھانا دینے کا حکم دیا اور ان کے آقا سے بات کی تو اس کے غلے یا تاوان میں سے تخفیف کر دی(ب) حضرت سفیان نے فرمایا اگر غلام کو بہت سا مال لیکر بیچنے کے لئے بھیجا تو ہم کہیںگے اس کو تجارت میں اجازت ہے۔اور لوگ اس سے دھوکا کھا سکتے ہیں۔اور اگر اس کو بھیجا ایک درہم اور دو درہم لیکر تو کچھ نہیں ہے یعنی تجارت کی اجازت نہیں ہے۔

Flag Counter