Deobandi Books

شرح ثمیری شرح اردو قدوری جلد 2 - یونیکوڈ

66 - 457
( باب الاقالة )
]٩١٠[(١)الاقالة جائزة فی البیع للبائع والمشتری بمثل الثمن الاول]٩١١[ (٢) فان 

(  باب الاقالة  )
ضروری نوٹ  اقالہ کا مطلب یہ ہے کہ بائع مبیع بیچنے کے بعد نادم ہو جائے کہ میں نے غلط بیچ دیا،پھر مشتری سے کہے کہ مجھے مبیع واپس کردیں اور ثمن واپس لے لیں اور مشتری ایسا کردے تو اس کو اقالہ کہتے ہیں۔ یا مشتری خریدنے پر نادم ہو جائے اور بائع سے کہے کہ مبیع واپس لے لیں اور ثمن دے دیں اور بائع ایسا کرے تو اس کو اقالہ کہتے ہیں۔ایسا کرنا جائز ہے بلکہ افضل ہے۔حدیث میں اس کا ثبوت ہے  عن ابی ھریرة قال قال رسول اللہ من اقال مسلما اقالہ اللہ عثرتہ (الف) (ابو داؤد شریف ، باب فی فضل الاقالة ج ثانی ص ١٣٤ نمبر ٣٤٦٠ ابن ماجہ شریف، باب الاقالة ص ٣١٥ نمبر ٢١٩٩) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اقالہ کرنا جائز ہے بلکہ سامنے والے کی مجبوری ہو تو اقالہ یعنی مبیع واپس کرنے میں ثواب ملے گا۔
]٩١٠[(١) اقالہ جائز ہے بیع میںبائع کے لئے اور مشتری کے لئے ثمن اول کے مثل سے۔  
تشریح  بائع اور مشتری دونوں کے لئے اقالہ جائز ہے۔لیکن جس قیمت میں بیع ہوئی تھی بائع اتنی ہی قیمت واپس کریگا،کم بھی نہیں اور زیادہ بھی نہیں۔بائع نے جتنی قیمت پہلے لی ہے وہی قیمت واپس کرے،اسی کو بمثل الثمن الاول کہا ہے۔  
وجہ  (١)بائع اور مشتری کے درمیان کوئی نئی بیع نہں ہے کہ قیمت زیادہ لے یا کم لے بلکہ اقالہ کا مطلب ہے ۔پہلے ہی بیع کو توڑنا ہے اس لئے پہلی ہی قیمت واپس کرے گا (٢) عن ابن عباس انہ کرہ ان یبتاع البیع ثم یردہ ویرد معہ دراھم وفی ھذا دلالة علی ان الاقالة فسخ فلا تجوز الابرأس المال(ب) ( سنن للبیھقی ، باب من اقال المسلم الیہ بعض المسلم وقبض بعضا ج سادس ص ٤٥، نمبر١١١٣٣)عن الاسود انہ کرہ ان یردھا و یرد معھا شیئا(ج) مصنف عبد الرزاق ج ثامن ص ١٩ نمبر ١٤١٣١) اس اثر میں حضرت عبد اللہ بن عباس نے ثمن کے ساتھ مزید کچھ دینے سے کراہیت کا اظہار کیا ہے۔  
اصول  اقالہ بیع اول کا فسخ ہے۔
]٩١١[(٢)پس اگر پہلی قیمت سے زیادہ کی شرط لگائی یا اس سے کم کی تو شرط باطل ہے،اور ثمن اول ہی لوٹا یا جائے گا۔  
تشریح  مثلا چارسو میں مبیع خریدی تھی اور مشتری نے اقالہ کے لئے پانچ سو درہم مانگے یا بائع نے کہا کہ اقالہ کے لئے تین سو دوںگا تو یہ کمی زیادتی کی شرط باطل ہے۔البتہ اس میں شرط لگانے سے اقالہ باطل نہیں ہوگا بلکہ ثمن اول ہی پر اقالہ ہوگا۔  
وجہ  اوپر ابن عباس کا اثر گزچکا ہے کہ زیادہ دینا وہ مکروہ سمجھتے تھے۔  

حاشیہ  :  (الف) آپۖ نے فرمایا کسی نے مسلمان سے اقالہ کیا تو اللہ اس کے گناہوں کو معاف کر دے گا(ب) حضرت عبد اللہ ابن عباس نا پسند کرتے تھے کہ آدمی بیع کرے پھر اس کو واپس لوٹائے اور اس کے ساتھ کچھ درہم لوٹائے۔اس قول میں اس بات پر دلالت ہے کہ اقالہ کرنا بیع کو فسخ کرنا ہے۔اس لئے نہیں جائز ہے مگر رأس المال یعنی پہلی قیمت کے ساتھ(ج) حضرت اسود نا پسند فرماتے تھے کہ مبیع واپس کرے اور اس کے ساتھ کچھ اور بھی واپس کرے۔

Flag Counter