Deobandi Books

شرح ثمیری شرح اردو قدوری جلد 2 - یونیکوڈ

95 - 457
المال اذا کان مما یتعلق العقد علی قدرہ کالمکیل والموزون والمعدود وتسمیة المکان 

شرط  ٢  نوع معلوم ہو  :  کیونکہ گیہوں بھی کئی قسم کے ہوتے ہیں۔اس لئے یہ طے کرنا ہوگا کہ کس قسم کے گیہوں چاہئے یا کس قسم کے چاول چاہئے ۔اس کو نوع معلوم کہتے ہیں ۔اس کا ثبوت اس اثر میں ہے۔ عن عامر قال اذا اسلم فی ثوب یعرف ذرعہ ورقعة فلا بأس (الف) (مصنف ابن ابی شیبة ١٧٣ فی السلم بالثیاب، ج رابع ،ص ٣٩٨،نمبر٢١٤٠١) اس اثر میں ہے ورقعة یعنی کس قسم کا کپڑا ہو۔یہ معلوم ہو تو کپڑے میں بیع سلم جائز ہے ۔
 شرط  ٣  صفت معلوم ہو  :  یعنی یہ بھی طے ہو کہ عمدہ قسم کے گیہوں ہو یا ردی قسم کے۔ ورنہ مشتری عمدہ لینا چاہے گا اور بائع ردی دینا چاہے گا اور جھگڑا ہوگا۔ اس لئے صفت کا طے ہونا ضروری ہے۔  
شرط  ٤  مبیع کی مقدار معلوم ہو :  یعنی مبیع کتنے کیلو ہوگی یا کتنے صاع ہوگی۔ تاکہ یہ نہ ہو کہ بیس کیلو پر بات طے ہوئی تھی یا تیس کیلو پر ؟ حدیث گزر چکی ہے  ففی کیل معلوم ووزن معلوم ۔
 شرط  ٥  مدت معلوم ہو  :  یعنی کب مبیع دو گے۔ تاکہ یہ نہ ہو کہ بائع دیر کرکے دے اور مشتری جلدی مانگے جس سے نزاع ہو۔ حدیث گزر چکی ہے الی اجل معلوم  (بخاری شریف،نمبر ٢٢٤١)
شرط  ٦  رأس المال یعنی ثمن کی مقدار معلوم ہو  :  یعنی وہ کتنے کیلو یا کتنے صاع یا کتنے عدد ہیں۔  
وجہ  کیونکہ مثلا مبیع نہیں دے سکا اور ثمن کو لوٹانے کی ضرورت پڑی تو اگر ثمن کی مقدار معلوم نہیں تو کیسے لوٹائے گا۔یا مثلا ثمن میں کھوٹا پن ہے اور اس کو لوٹا نے کی ضرورت پڑی تو کیسے لوٹائے گا۔اس لئے اگر ثمن کیلی ہو یا وزنی ہو یا عددی ہو تو ثمن کی مقدار معلوم ہونا ضروری ہے۔ چاہے ثمن کی طرف اشارہ کرکے بیع سلم طے کی ہو۔ ہاں اگر ثمن ذراعی ہو مثلا کپڑا ہو تو کپڑوں میں ذراع صفت ہے اور صفت کے مقابلے میں کوئی قیمت نہیں ہوتی اس لئے ذراعی کی شکل میں کپڑا سامنے ہو تو کتنا گز ہے اس کو معلوم کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ امام ابو حنیفہ کی دلیل یہ اثر ہے وقال ابن عمر لابأس فی الطعام الموصوف بسعر معلوم الی اجل معلوم (ب) (بخاری شریف ، باب السلم الی اجل معلوم ص ٣٠٠ نمبر ٢٢٥٣) اس اثر میں ہے کہ بھاؤ معلوم ہو یعنی رأس المال ثمن کی مقدار معلوم ہو۔  
شرط  ٧  سپرد کرنے کی جگہ معلوم ہو  :  مسلم فیہ یعنی مبیع کو اٹھا کر لے جانے کا کرایہ لگتا ہو تو مبیع کو کس مقام پر مشتری کو دے گا اس جگہ کا تعین بھی ضروری ہے۔ کیونکہ اگر جگہ متعین نہ ہو تو بائع اپنے قریب مبیع دینا چاہے گا اور مشتری اپنے قریب لینا چاہے گا اور جھگڑا ہوگا۔اس لئے مبیع دینے کی جگہ کا متعین ہونا ضروری ہے۔ہاں اگر مبیع کے اٹھانے کا کرایہ نہ ہو تو کسی جگہ بھی دیگا تو صحیح ہو جائے گا۔ اس صورت میں جگہ کو متعین کرنے کی ضرورت نہیں۔  
اصول  مبیع سامنے نہ ہو تو اتنی شرطیں لگائی جائیں کہ مبیع کافی حد تک موجود کے درجے میں ہو جائے۔  

حاشیہ  :  (الف) حضرت عامر نے فرمایا اگر کپڑے میں بیع سلم کرے تو اس کا گز اور اس کی قسم معلوم ہو تو کوئی حرج کی بات نہیں ہے(ب) حضرت ابن عمر نے فرمایا کوئی حرج کی بات نہیں ہے سلم کرنے میں صفات بیان کئے ہوئے کھانے میں بھاؤ معلوم ہو مدت معلوم ہو۔

Flag Counter