Deobandi Books

شرح ثمیری شرح اردو قدوری جلد 2 - یونیکوڈ

93 - 457
]٩٥٧[(٦) ولا یجوز السلم بمکیال رجل بعینہ ولا بذراع رجل بعینہ]٩٥٨[ (٧) ولا فی طعام قریة بعینھا ولا فی ثمرة نخلة بعینھا۔

]٩٥٧[(٦) کسی آدمی کے متعین مکیال سے بیع سلم جائز نہیں اور نہ کسی متعین آدمی کے ہاتھ سے۔  
تشریح  ایک آدمی کا متعین برتن ہے اور اس کی مقدار معلوم نہیں ہے کہ کتنا کیلو اس میں آتا ہے ۔اب اس برتن کی ناپ سے بیع سلم کرنا جائز نہیں ہے۔  
وجہ  مبیع مہینوں بعد ادا کرنا ہے اس لئے اگر وہ برتن گم ہو جائے تو کس برتن سے ناپیںگے۔اس کی مقدار تو معلوم نہیں ہے اس لئے کسی آدمی کے متعین برتن سے بیع سلم کرنا جائز نہیں ہے۔اسی طرح متعین آدمی کے ہاتھ سے بیع سلم کی اور وہ آدمی مر گیا یا کہیں چلا گیا تو کس آدمی کے ہاتھ سے کپڑا ناپیںگے۔ اس لئے کسی متعین آدمی کے ہاتھ سے بیع سلم کرنا جائز نہیں ہے۔اس بارے میں حدیث آگے آرہی ہے۔
]٩٥٨[(٧) اور نہیں جائز ہے بیع سلم کسی متعین گاؤں کے کھانے میں اور نہ متعین درخت کے پھل میں۔  
تشریح  کوئی یوں طے کرے کہ فلاں متعین گاؤں کے گیہوں کی بیع سلم کرتا ہوں یا متعین آدمی مثلا زید کے فلاں درخت کے پھل کی بیع سلم کرتا ہوں تو یہ بیع سلم صحیح نہیں ہے۔  
وجہ  (١)اگر اس گاؤں میں گیہوں کی پیداوار نہ ہو تو کون سا گیہوں دے گا؟ اور اس قسم کے گیہوں کہاں سے لائے گا؟اسی طرح متعین درخت میں پھل نہیں آئے تو کون سا پھل دے گا ؟اس لئے متعین گاؤں یا متعین درخت کے پھل میں بیع سلم جائز نہیں ہے۔ہاں کہیں کا بھی گیہوں ہو تو جائز ہے(٢) حدیث میں اس کا ثبوت ہے۔عن ابن عمر ان رجلا اسلف رجلا فی نخل فلم تخرج تلک السنة شیئا فاختصما الی النبی ۖ فقال بما تستحل مالہ اردد علیہ مالہ ثم قال لا تسلفو فی النخل حتی یبدو صلاحہ (الف) (ابو داؤد شریف، باب فی السلم فی ثمرة بعینھا ص ١٣٥ نمبر ٣٤٦٧ ابن ماجہ شریف ، باب اذا اسلم فی نخل بعینہ لم یطلع ص ٣٢٧ نمبر ٢٢٨٤) اس حدیث میں ہے کہ ایک خاص درخت کے پھل میں بیع سلم کی اور اس میں اس سال پھل نہیں آئے تو آپۖ نے فرمایا اس کے مال کو کیسے حلال کروگے؟ مال واپس کرو۔اس لئے متعین گاؤں اور متیع درخت کی بیع سلم جائز نہیں ہے (٢)حدیث میں ہے ۔قال عبد اللہ بن سلام ... فقال زید بن سعنہ یا محمد ھل لک ان تبیعنی تمرا معلوما الی اجل معلوم من حائط بنی فلان قال لا یا یہودی ولکنی ابیعک تمرا معلوما الی کذا وکذا من الاجل ولا اسمی من حائط بنی فلان فقلت نعم (ب) (سنن للبیھقی ، 

حاشیہ  :  (الف)حضرت عبد اللہ بن عمر فرماتے ہیں کہ ایک آدمی نے کھجور کے درخت کے بارے میں بیع سلم کی۔لیکن اس سال کوئی پھل نہیں آئے۔تو دونوں حضور کے پاس جھگڑا لیکر آئیں۔آپۖ نے فرمایا اس کے مال کو کیسے حلال کروگے ؟ اس کیمال کو واپس کرو۔ پھر آپۖ نے فرمایا کھجور کے بارے میں بیع سلم نہ کرو جب تک کہ کار آمد نہ ہو جائے(ب) زید بن سعنہ نے کہا اے محمد ! کیا آپۖ چاہتے ہیں کہ بنی فلاں کے باغ کا کھجور مجھے بیچے۔آپۖ نے فرمایا نہیں  اے یہودی۔ لیکن میں تم سے بیچتا ہوں معلوم کھجور اتنی اتنی مدت تک، بنی فلاں کے باغ کو متعین نہیں کرتا۔میں نے کہا ہاں۔یعنی میں بنی فلاں کے باغ کو متعین نہیں کرتا۔البتہ کوئی بھی کھجور کی بیع سلم کرسکتا ہوں۔

Flag Counter