Deobandi Books

شرح ثمیری شرح اردو قدوری جلد 2 - یونیکوڈ

92 - 457
ولا یجوز السلم حتی یکون المسلم فیہ موجودا من حین العقد الی حین المحل]٩٥٦[ (٥) ولا یصح السلم الا مؤجلا ولا یجوز الا باجل معلوم۔

تشریح  یہاں سے بیع سلم صحیح ہونے کے لئے اس کے شرائط کا بیان ہے۔ اس میں ایک شرط یہ ہے کہ ایسی چیز کی بیع سلم جائز ہے جو عقد کے وقت سے جس دن مبیع مشتری کو دینا ہے اس وقت تک بازار میں موجود ہواور ملتی ہو۔ اگر وہ چیز بازار میں بھی نہیں ملتی ہو تو بیع سلم جائز نہیں ہے۔ یا دینے کے دنوں ملے گی لیکن ابھی بازار میں نہیں ہے۔درمیان میں بازر سے غائب ہونے کا قوی امکان ہے تب بھی بیع سلم جائز نہیں ہوگی۔  وجہ  جو چیز بازار میں ملتی نہیں ہے اس کی بیع سلم کر لیں تو وقت آنے پر مشتری کو کیا چیز دیں گے۔اور کیسے اس کے روپے حلال کریںگے۔اس لئے منع فرمایا (٢) حدیث میں ایسی چیز کی بیع سلم سے منع فرمایا جو ابھی بازار میں نہیں ملتی ہو۔ عن ابن عمر ان رجلا اسلف رجلا فی نخل فلم تخرج تلک السنة شیئا فاختصما الی النبی ۖ فقال بما تستحل مالہ اردد علیہ مالہ ثم قال لا تسلفوا فی النخل حتی یبدو صلاحہ (الف) (ابو داؤد شریف ، باب فی السلم فی ثمرة بعینھا ص ١٣٥ نمبر ٣٤٦٧ بخاری شریف ، باب السلم الی من لیس عندہ اصل ص ٢٩٩ نمبر ٢٢٤٦ ابن ماجہ شریف ، باب اذا اسلم فی نخل بعینہ لم یطلع ص ٣٢٧ نمبر ٢٢٨٤) اس حدیث میں فرمایا کہ بازار میں بھی اصل موجود نہ ہو تو کیسے بیع کروگے ؟ اور کیسے مشتری کے مال کو حلال کروگے ؟اس لئے مال کا بازار میں ہونا ضروری ہے۔  
اصول  مال کم از کم بازار میں ملتا ہو تو بیع سلم جائز ہوگی۔  
فائدہ  امام شافعی فرماتے ہیں کہ دینے کے وقت مبیع بازار میں ملتی ہو تب بھی بیع سلم جائز ہے۔  
وجہ  دینے کے وقت مبیع موجود ہے اتنا ہی کافی ہے کیونکہ اسی وقت مبیع کی ضرورت پڑے گی۔  
لغت  المسلم فیہ  :  مبیع۔  المحل  :  مدت حلول ہونے کا وقت،مبیع دینے کا وقت۔
]٩٥٦[(٥) اور نہیں جائز ہے سلم مگر مؤخر کرکے اور نہیں جائز ہے مگر معلوم مدت کے ساتھ۔  
تشریح  بیع سلم کہتے ہی ہیں اس کو جس میں مبیع بعد میں دی جائے۔اور اگر مبیع فوری دینے کی بات ہو تو اس کو بیع سلم نہیں کہیںگے۔اس کو عام بیع اور بیع عین کہیںگے۔  
فائدہ  امام شافعی فرماتے ہیں کہ اگر سلم کے الفاظ سے بیع کی ہو تو اس کو بھی بیع سلم کہہ سکتے ہیں۔ بیع سلم میں یہ بھی ضروری ہے کہ مدت معلوم ہو۔   
وجہ  (١) ورنہ تو مشتری پہلے لینا چاہے گا اور بائع بعد میں دینا چاہے گا۔اور جھگڑا ہوگا اس لئے مبیع دینے کی تاریخ طے ہونا ضروری ہے (٢) حدیث میں گزرا الی اجل معلوم (بخاری شریف نمبر ٢٢٤٠ مسلم شریف نمبر ١٦٠٤) اس لئے مدت متعین ہونا ضروری ہے۔

حاشیہ  :  (الف) حضرت عبد اللہ بن عمر فرماتے ہیں کہ ایک آدمی نے کھجور کے درخت کے بارے میں بیع سلم کی۔لیکن اس سال کوئی پھل نہیں آیا۔تو دونوں حضور کے پاس جھگڑا لیکر آئے۔آپۖ نے فرمایا اس کے مال کو کیسے حلال کروگے ؟ اس کے مال کو واپس کرو۔ پھر آپۖ نے فرمایا کھجور کے بارے میں بیع سلم نہ کرو جب تک کہ کار آمد نہ ہو جائے۔

Flag Counter