Deobandi Books

شرح ثمیری شرح اردو قدوری جلد 2 - یونیکوڈ

88 - 457
بین المسلم والحربی فی دار الحرب۔

اس حدیث میں کہا گیا ہے کہ حربی اور مسلمان کے درمیان سود نہیں ہے۔امام ابو حنیفہ کا مسلک یہی ہے۔  
نوٹ  مجھے یہ حدیث تلاش بسیار کے بعد کہیں نہیں ملی۔  
فائدہ  امام ابو یوسف اور امام شافعی فرماتے ہیں کہ حربی اور مسلمان کے درمیان بھی سود جائز نہیں ہے۔  
وجہ  قرآن میں علی الاطلاق سود کو حرام قرار دیا گیا ہے۔آیت ہے  یا ایھا الذین آمنوا اتقوا اللہ وذروا مابقی من الربوا ان کنتم مؤمنین (الف) (آیت ٢٧٨ سورة البقرة٢) اس آیت میںفرمایا کہ جو سود باقی رہ گیا ہو اس کو چھوڑ دو اور یہ علی الاطلاق ہے۔اس لئے حربی سے سود لینا حرام ہوگا
(٣) حجة الوداع کے موقع پر آپۖ نے سود ختم کرنے کا اعلان فرمایا تھا اور حضرت عباس کا سود جو لوگوں پر تھا اس کو معاف کرنے کا اعلان فرمایا تھا۔حالانکہ وہ سود کافروں پر بھی تھا۔جس سے معلوم ہوا کہ سود حربی سے بھی لینا حرام ہے۔قال دخلنا علی جابر بن عبد اللہ فسأل عن القوم ... واول ربا اضع ربانا ربا عباس بن عبد المطلب فانہ موضوع کلہ (ب) (مسلم شریف ، باب حجة النبی ص ٣٩٤ نمبر ١٢١٨ ابو داؤد شریف ، باب صفة حجة النبی ص ٢٦٩ نمبر١٩٠٥) اس حدیث میں آپۖ نے علی الاطلاق سود منع فرمایا ہے۔بلکہ ابو داؤد میں یہ جملہ ہے   وربا الجاھلیة موضوع  جس کا مطلب یہ ہے کہ حربیوں کے سود بھی ختم کئے جاتے ہیں۔اس لئے حربی سے بھی سود لینا حرام ہوگا  نوٹ  فتوی امام یوسف کے مسلک پر ہے۔خصوصا دار الامن میں سود لینا بالکل جائز نہیں ہے۔ 

حاشیہ  :  (پچھلے صفحہ سے آگے)مسلمان کے درمیان سود واقع نہیں ہوتا(الف)اے ایمان والو! اللہ سے ڈڑو اور جو سود باقی ہے اس کو چھوڑ دو اگر تم ایمان رکھتے ہو(ب) سب سے پہلا ربوا جو ختم کرتا ہوں وہ عباس بن عبد المطلب کا ربوا ہے۔پس وہ تمام کے تمام ختم کئے جاتے ہیں۔

Flag Counter