Deobandi Books

شرح ثمیری شرح اردو قدوری جلد 2 - یونیکوڈ

81 - 457
وحرم النسائ]٩٣٩[ (٨) وکل شیء نص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم علی تحریم التفاضل فیہ کیلا فھو مکیل ابدا وان ترک الناس فیہ الکیل مثل الحنطة والشعیر والتمر 

اخروٹ کے بدلے میں اخروٹ خریدے تو اخروٹ عددی ہے اس لئے ایک اخروٹ دیکر دو اخروٹ لے سکتا ہے۔لیکن ادھار جائز نہیں ہوگا۔بلکہ مجلس میں قبضہ کرنا ہوگا۔کیونکہ دونوں طرف جنس ایک ہے۔حدیث میں ہے ۔ عن جابر قال جاء عبد فبایع النبی ۖ علی الھجرة ولم یشعر انہ عبد فجاء سیدہ یریدہ فقال لہ النبی ۖ بعنیہ فاشتراہ بعبدین اسودین (الف) (مسلم شریف ،باب جواز بیع الحیوان بالحیوان من جنسہ متفاضلا ص ٣٠ نمبر ١٦٠٢ بخاری شریف، باب بیع العبد والحیوان نسیئة ص ٢٩٧ نمبر ٢٢٢٨) اس حدیث میں ایک غلام کو دو غلاموں کے بدلے میں خریدا ہے۔ اور ادھار حرام ہونے کی دلیل یہ حدیث ہے۔عن سمرة بن جندب عن النبی ۖ انہ نھی عن بیع الحیوان بالحیوان نسیئة (ب) (سنن للبیھقی ، باب ماجاء فی النھی عن بیع الحیوان بالحیوان نسیئة ،ج خامس، ص ٤٧٢، نمبر١٠٥٣٢) اس حدیث میں عددی چیزوں کی جنس ایک ہو تو ادھار بیچنا حرام قرار دیا۔  
لغت  النساء  :  ادھار۔
]٩٣٩[(٨) ہر وہ چیز جس میں حضور  ۖ نے تصریح کی کمی بیشی کے حرام ہونے پر کیل کے اعتبار سے وہ چیز ہمیشہ کیلی ہے اگر چہ لوگ اس کو کیل کرنا چھوڑ دے۔مثلا گیہوں، جو، کھجور اور نمک۔اور ہر وہ چیز کہ تصریح کی اس میں کمی بیشی کے حرام ہونے پر وزن کے اعتبار سے تو وہ ہمیشہ وزنی ہے اگرچہ لوگ اس کو وزن کرنا چھوڑ دے۔جیسے سونا اور چاندی۔  
تشریح  حضور کے زمانے میں جو چیزیں کیلی تھیں وہ قیامت تک کیلی ہی رہیںگی۔اور کمی بیشی کا اعتبار کیل کے اعتبار سے ہوگا۔چاہے بعد میں لوگوں نے ان چیزوں کو کیل کرنا چھوڑ دیا ہو۔ مثلا گیہوں ، جو، کھجور اور نمک وغیرہ حضور کے زمانے میں کیل سے بیچے جاتے تھے اور حضورۖ نے تصریح کی ہے کہ یہ کیلی ہیں اس لئے وہ ہمیشہ کیلی ہی رہیںگی۔چاہے آج کل لوگوں نے ان چیزوں کو وزن کرکے بیچنا شروع کر دیا ہے۔ اور جو چیزیں حضور کے زمانے میں وزنی تھیں اور آپۖ نے تصریح فرمائی ہے کہ یہ وزنی ہیں تو وہ قیامت تک وزنی ہی کے اعتبار سے سود کا اعتبار ہوگا۔ مثلا سونا اور چاندی حضور کے زمانے میں وزنی تھے اور آپۖ نے تصریح فرمائی ہے کہ یہ وزنی ہیں اس لئے قیامت تک وزنی رہیںگے  وجہ  آپ کی حدیث قیامت تک کے لئے ہے اور آپ کا دین قیامت تک کے لئے ہے اس لئے آپ کی تصریح کا اعتبار بھی قیامت تک رہے گا (٢) حدیث میں اس کا اشارہ موجود ہے۔عن ابن عمر قال قال رسول اللہ ۖ الوزن وزن اہل مکة والمکیال مکیال اہل المدینہ(ج) (ابو داؤد شریف، باب فی قول النبی ۖ المکیال مکیال المدینة ص ١١٨ نمبر ٣٣٤٠) اس حدیث میں اشارہ ہے کہ وزن میں اہل مکہ کا اعتبار ہے اور کیل میں اہل مدینہ کا اعتبار ہے۔اس کا ایک مطلب تو یہ ہے کہ جس معیار اور قدر کا کیل اہل مدینہ کا ہے اسی کا 

حاشیہ  :  (الف) ایک غلام آیا اور حضورۖ نے اس سے ہجرت کرنے پر بیعت کی اور معلوم نہیں تھا کہ وہ غلام ہے۔پھر اس کا مالک آکر مانگنے لگا تو آپۖ نے فرمایا اس کو بیچ دو۔ تو آپۖ نے اس کو دو کالے غلام کے بدلے خریدا(ب) آپۖ نے حیوان کو حیوان کے بدلے میں ادھار بیچنے سے روکا(ج) آپۖ نے فرمایا وزن میں اہل مکہ کے وزن کا اعتبار ہے اور کیل میں اہل مدینہ کے کیل کا اعتبار ہے۔

Flag Counter