Deobandi Books

شرح ثمیری شرح اردو قدوری جلد 2 - یونیکوڈ

75 - 457
]٩٢٧[(١٣) ویجوز للمشتری ان یزید البائع فی الثمن]٩٢٨[ (١٤) ویجوز للبائع ان یزید فی المبیع ویجوز ان یحط من الثمن]٩٢٩[ (١٥) ویتعلق الاستحقاق بجمیع 

]٩٢٧[(١٣) اور مشتری کے لئے جائز ہے کہ بائع کو ثمن میں زیادہ دے۔  
تشریح  مثلا دس پونڈ میں کپڑا خریدا ہے اب مشتری خوش ہو کر بارہ پونڈ دینا چاہتا ہے تو دے سکتا ہے۔  
وجہ  یہ مشتری کی ملکیت ہے اس کو جیساچاہے خرچ کر سکتا ہے (٢) حدیث میں قیمت زیادہ دی گئی ہے۔عن ابی رافع قال استسلف رسول اللہ بکرا فجائتہ ابل من الصدقة فامر نی ان اقضی الرجل بکرہ فقلت لم اجد فی الابل الا جملا خیارا رباعیا فقال النبی ۖ اعطہ ایاہ فان خیار الناس احسنھم قضاء (الف) (ابو داؤد شریف ، باب فی حسن القضاء ص ١١٩ نمبر ٣٣٤٦) اس حدیث میں جوان اونٹ لیاتھااور اس کے بدلے اچھے قسم کا اونٹ واپس دیا اور فرمایا کہ حسن ادا کرنے والا اچھا آدمی ہے۔جس سے معلوم ہوا کہ مشتری زیادہ دینا چاہے تو دے سکتا ہے۔
]٩٢٨[(١٤) اور بائع کے لئے جائز ہے کہ مبیع میں زیادہ کردے اور جائز ہے کہ ثمن میں کمی کردے۔  
تشریح  بائع کے لئے یہ بھی جائز ہے کہ جتنی مبیع طے ہوئی ہے اس سے زیادہ دے اور یہ بھی جائز ہے کہ جتنا ثمن طے ہوا ہیں اس سے کم لے۔
  وجہ  اس کی ملکیت ہے وہ ایسا کر سکتا ہے (٢) مبیع زیادہ دینے کی ترغیب حدیث میں ہے۔ حدثنا سوید بن قیس ... وثم رجل یزن بالاجر فقال لہ رسول اللہ ۖ زن وارجح (ب) (ابو داؤد شریف ،باب فی الرجحان فی الوزن ص ١١٨ نمبر ٣٣٣٦) اس حدیث میں ہے کہ بائع کو چاہئے کہ مبیع کو وزن میں کچھ زیادہ ہی دینا چاہئے۔
]٩٢٩[(١٥) اور استحقاق ان تمام کے ساتھ متعلق ہونگے۔  
تشریح  مشتری نے دس پونڈ قیمت کی تھی اس کے بجائے بارہ پونڈ دیئے تو اب مرابحہ اور تولیہ جو کرے گا وہ بارہ پونڈ پر کرے گا ۔اسی طرح بائع نے ایک مبیع کے بجائے دو مبیع دس پونڈ میں دیدی تو اب یوں کہے گا کہ دو مبیع دس پونڈ میں لی ہیں۔یوں نہیں کہے گا کہ ایک مبیع دس پونڈ میں لی ہے۔ اسی طرح بائع نے دس پونڈ کے بجائے آٹھ پونڈ لئے تو لینے والا یوں کہے گا کہ آٹھ پونڈ میں مبیع خریدی ہے۔اور اسی آٹھ پونڈ پر مرابحہ اور تولیہ کرے گا۔ اب دس پونڈ پر مرابحہ یا تولیہ نہیں کرے گا۔ اسی طرح جو آدمی شفعہ کا دعوی کرے گا وہ اب موجودہ قیمت اور موجودہ مبیع پر شفعہ کا دعوی کرے گا ۔
 وجہ  کیونکہ اب یہی قیمت اصل بن گئی اور زیادہ دی ہوئی قیمت یا بائع کی جانب سے کم کی ہوئی قیمت ہی اصل بن گئی۔اس لئے اب تمام حقوق اسی پر منحصر ہونگے۔  

حاشیہ  :  (الف) حضورۖ نے جوان اونٹ کا سودا کیا پھر آپ کے پاس صدقہ کا اونٹ آیا تو مجھے حضورۖ نے حکم دیا کہ جوان اونٹ ادا کردوںتو میں اونٹ میں نہیں پایا مگر اس سے اچھا اونٹ چار دانت والا۔آپۖ نے فرمایا کہ اچھا اونٹ اس کو دیدو۔اچھے لوگ وہ ہیں جو اچھے انداز سے ادا کرے(ب) وہاں ایک آدمی تھا جو اجرت پر وزن کرتا تھا تو آپۖ نے فرمایا جھکا کر تولا کرو۔

Flag Counter