Deobandi Books

شرح ثمیری شرح اردو قدوری جلد 2 - یونیکوڈ

74 - 457
]٩٢٦[(١٢) والتصرف فی الثمن قبل القبض جائز۔

وجہ  (١)پہلا کیل کرنا یا وزن کرنا پہلے مشتری کو حوالے کرنے کے لئے تھا ۔یہ وزن اگلے مشتری کے لئے کافی نہیں ہے۔اگر کیل یا وزن سے اس نے خریدا ہے تو اس کے سامنے دو بارہ کیل یا وزن کرنا ہوگا۔تاکہ اس کو اطمینان ہو۔اور کمی زیادتی نہ ہونے پائے (٢) آیت میں اس کی تاکید ہے  الذین اذا اکتالوا علی الناس یستوفون واذا کاکالوھم او وزنوھم یخسرون (الف) (آیت ٣٢ سورة المطففین ٨٣)اس آیت میں کیل اور وزن پورا دینے کی تاکید ہے (٣) حدیث میں ہے  عن عثمان ان النبی ۖ قال اذا بعت فکِل واذا ابتعت فاکتل (ب) (بخاری شریف ، باب الکیل علی البائع والمعطی ص ٢٨٥ نمبر ٢١٢٦ مسلم شریف ، باب بطلان بیع المبیع قبل القبض ص ٥ نمبر ١٥٢٨) (٣) ابن ماجہ شریف میں ہے  عن جابر قال نھی رسول اللہ ۖ عن بیع الطعام حتی یجری فیہ الصاعان صاع البائع وصاع المشتری (ج) ّابن ماجہ شریف،باب النھی عن بیع الطعام قبل مالم یقبض ص ٣١٩ نمبر ٢٢٢٨) اس حدیث میں ہے کہ مشتری جب تک دو بارہ کیل نہ کرے اگلے مشتری کو نہ بیچے۔  
نوٹ  اس حدیث کی بنیاد پرکھانے کے وقت دو بارہ کیل کرنا استحبابی ہے۔کیونکہ ہو سکتا ہے کہ غلہ زیادہ آگیا ہوتو بائع کو واپس کر سکے،یا کم آیا ہو تو اس سے لے سکے ۔
 نوٹ  اگر کیل یا وزن کرکے نہ بیچے بلکہ اٹکل سے بیچے تو دو بارہ کیل کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔  
اصول  کسی کو مال پورا دینا چاہئے اور پورا لینا چاہئے۔اسی اصول پر یہ مسئلہ متفرع ہے۔
]٩٢٦[(١٢)اور تصرف کرنا ثمن میں قبضہ کرنے سے پہلے جائز ہے۔  
تشریح  بائع نے بیچنے کی ابھی بات کی ہے اور مبیع دی تھی لیکن مشتری نے ابھی ثمن نہیں دیا ہے اور نہ بائع نے اس پر قبضہ کیا ہے ۔اس سے پہلے اس ثمن کے ذریعہ کوئی چیز خریدنا چاہے تو خرید سکتا ہے۔یا ثمن کو ہبہ کرنا چاہے تو ہبہ کر سکتا ہے۔  
وجہ  ثمن متعین کرنے سے متعین نہیں ہوتا اس لئے یہ ثمن نہیں دے سکے گا تو اپنی طرف سے کوئی دوسرا پونڈ یا روپیہ دے دے گا۔یہی ثمن دینا کوئی ضروری نہیں ہے۔ اس ثمن کی تعیین تو بائع کو بھروسہ دینے کے لئے کی ہے۔اثر میں ہے کہ ثمن کے بدلے کوئی اور چیز بھی لے سکتا ہے۔عن ابن سیرین قال اذا بعت شیئا بدینار فحل الاجل فخذ بالدینار ما شئت من ذلک النوع و غیرہ (د) (مصنف عبد الرزاق ، باب السلعة یسلفھا فی دینار ھل یأخذ غیر الدینار ج ثامن ص ١٦ نمبر ١٤١١٦) اس اثر میں ہے کہ ثمن دینار ہو تو اس کے بدلے کوئی اور چیز لے سکتا ہے۔جس کا مطلب یہ ہوا کہ ثمن متعین کرنے سے متعین نہیں ہوتا۔اس لئے اس کو قبضہ کرنے سے پہلے تصرف کر سکتا ہے۔  
نوٹ  ثمن اگر سامان ہے جومتعین کرنے سے متعین ہوتا ہے اس پر قبضہ کرنے سے پہلے بیچ نہیں سکتا۔دلائل پہلے گزر چکے ہیں۔

 حاشیہ  :  (الف) وہ لوگ جو لوگوں سے کیل کرکے لیتے ہیں تو پورا لیتے ہیں۔اور جب کیل کرکے دیتے ہیں یا وزن کرکے دیتے ہیں تو کم دیتے ہیں (ب) آپۖ نے فرمایا جب بیچو تو کیل کرکے بیچو اور جب خریدو تو کیل کرو (ج) آپۖ نے غلوں کو بیچنے سے روکا یہاں تک کہ اس میں دو صاع جاری ہوں،بائع کا صاع اور مشتری کا صاع(د) ابن سیرین نے فرمایا اگر آپ نے کسی چیز کو دینار کے بدلے بیچا پس وقت آیا تو دینار کے بدلے جو چاہے لو اسی قسم میں سے یا اس کے علاوہ۔

Flag Counter