Deobandi Books

شرح ثمیری شرح اردو قدوری جلد 2 - یونیکوڈ

76 - 457
ذلک ]٩٣٠[(١٦) ومن باع بثمن حال ثم اجلہ اجلا معلوما صار مؤجلا]٩٣١[(١٧) وکل دین حال اذا اجلہ صاحبہ صار مؤجلا الا القرض فان تأجیلہ لایصح۔

اصول  زیادہ دی ہوئی قیمت یا کم کی ہوئی قیمت یا زیادہ دی ہوئی مبیع اصل کے ساتھ لاحق ہو کر اب یہ اصل بن جائیگی (٢) اب تمام حقوق ان ہی کے ساتھ متعلق ہونگے۔  
فائدہ  امام شافعی کی رائے یہ ہے کہ شروع میں جو قیمت یا مبیع طے ہوئی تھی وہی اصل ہے۔اسی کے ساتھ تمام حقوق متعلق ہوںگے۔اور بعد میں جو مبیع زیادہ کی یا ثمن زیادہ کئے وہ بعد کا ہدیہ اور ہبہ ہے اس کا تعلق اصل مبیع اور ثمن کے ساتھ نہیں ہے۔اس لئے اس زیادتی کے ساتھ حقوق متعلق نہیں ہونگے۔
]٩٣٠[(١٦) کسی نے فوری ثمن کے ساتھ بیچا پھر اس کو مؤخر کردیا اجل معلوم کے ساتھ تو مؤجل ہو جائے گا۔  
تشریح  کسی نے اس طرح بیع کی کہ ابھی قیمت دے گا لیکن بعد میں متعین تاریخ کے ساتھ مؤخر کر دیا تو اب مؤخر ہو جائے گا۔اور متعین تاریخ پر قیمت دینی ہوگی۔  
وجہ  حدیث میں قیمت مؤخر کرنے کی ترغیب ہے۔ان حذیفة  قال قال النبی ۖ تلقت الملائکة روح رجل ممن قبلکم فقالوا اعملت من الخیر شیئا؟ قال کنت آمر فتیانی ان ینظروا ویتجاوزوا عن الموسر قال فتجاوزوا عنہ (الف) (بخاری شریف ، باب من انظر موسرا ص ٢٧٩ نمبر ٢٠٧٧) اس حدیث میں پچھلے زمانے کے ایک آدمی کو اس بنا پر اللہ نے معاف کردیا کہ وہ قیمت لینے میں مہلت دیا کرتا تھا۔اس لئے قیمت لینے میں مہلت دینا جائز ہے۔بشرطیکہ تاریخ معلوم ہو ورنہ جھگڑا ہوگا(٢) تاخیر دینا بائع کا اپنا اختیار ہے اس لئے وہ استعمال کر سکتاہے۔  
لغت  حال  :  ابھی فوری۔  اجلا  :  تاخیر کے ساتھ۔
]٩٣١[(١٧)ہر وہ دین جو فوری ہو اگر اس کو مؤخر کردیاجائے تو مؤخر ہو جائے گا مگر قرض کہ اس کی تاخیر صحیح نہیں ہے۔  
تشریح  مثلا مبیع کی قیمت مشتری پر فوری ہو اس کو مؤخر کر دیا تو وہ مؤخر ہو جائے گی۔اب بائع تاریخ سے پہلے لینا چاہے تو نہیں لے سکے گا۔
 وجہ  تاخیر کرنے میں مبیع کی قیمت زیادہ ہو جاتی ہے اس لئے تاخیر کی بھی قیمت ہوئی اس لئے اس کو تاریخ سے پہلے نہیں لے سکتا۔ لیکن قرض تو شروع سے تبرع اور احسان ہے اس لئے جب چاہے قرض دینے والا واپس لے سکتا ہے۔تاریخ متعین کرنے سے متعین نہیں ہوگی۔قانونی طور پر پہلے بھی لے سکتا ہے۔البتہ تاریخ پر لے تو بہتر ہے۔اس اثر میں اس کا ثبوت ہے ۔عن ابراھیم قال والقرض حال وان کان الی اجل(ب) (مصنف ابن ابی شیبة ٦٤ من قال القرض حال وان کان الی اجل ،ج رابع، ص٣٢٤، نمبر٢٠٥٧٨)

حاشیہ  :  (الف) آپۖ نے فرمایا تم سے پہلی قوم میں ایک آدمی کی روح فرشتہ نے قبضہ کرنا چاہا تو انہوں نے کہا تم نے کوئی خیر کا کام کیا ہے ؟ اس آدمی نے کہا کہ میں نوجوان کو حکم دیتا تھا کہ تنگدستوں کو مہلت دیں اور درگذر کریں۔حضورۖ نے فرمایاتو اللہ نے ان کو معاف کر دیا(ب) قرض فوری ہوتا ہے چاہے مؤخر کرکے لینے کا وعدہ ہو۔

Flag Counter