Deobandi Books

شرح ثمیری شرح اردو قدوری جلد 2 - یونیکوڈ

71 - 457
الطعام]٩١٩[ (٥) ویقول قام علی بکذا ولا یقول اشتریتہ بکذا]٩٢٠[ (٦) فان اطلع المشتری علی خیانة فی المرابحة فھو بالخیار عند ابی حنیفة رحمہ اللہ تعالی ان شاء اخذہ بجمیع الثمن وان شاء ردہ۔

]٩١٩[(٥) اور کہے گا مجھکو اتنے میں پڑی ہے اور یہ نہ کہے کہ میں نے اس کو اتنے میں خریدی ہے۔  
تشریح  اجرت وغیرہ جو کچھ اصل ثمن میں شامل کی جائے گی اس کو شامل کرنے کے بعد یہ نہ کہے کہ میں نے اتنے میں خریدی ہے۔کیونکہ یہ تو جھوٹ ہوگا اتنے میں تو اس نے خریدی نہیں ہے۔اس لئے یوں کہے کہ مجھے یہ مبیع اتنے میں پڑی ہے۔  
اصول  آدمی ہر حال میں سچ بولے۔تاکہ اعتماد بحال رہے۔  
لغت  قام علی کذا  :  مجھ کو اتنی میں پڑی ہے۔
]٩٢٠[(٦) پس اگر مشتری بیع مرابحہ میں خیانت پر مطلع ہو تو امام ابو حنیفہ کے نزدیک اس کو اختیار ہے چاہے تو پوری قیمت سے لے چاہے تو اس کو رد کردے۔  
تشریح  مثلا دس پونڈ میں کپڑا خریدا تھااور اس نے خیانت کی اور کہا کہ بارہ پونڈ میں خریدا ہے۔اور تین پونڈ نفع لیکر پندرہ پونڈ میں بیچتا ہوں۔مشتری نے اعتماد کر کے خرید لیا بعد میں پتہ چلا کہ بائع نے جھوٹ بولا ہے۔اس نے دس پونڈ ہی میں خریدا تھا اور مجھ سے تین پونڈ نہیں پانچ پونڈ نفع لیا ہے۔تو امام ابو حنیفہ کے نزدیک مشتری کو اختیار ہے کہ لے یا رد کردے۔لیکن لے گا تو پندرہ پونڈ میں لے گا۔دس پر تین پونڈ نفع ملا کر تیرہ پونڈ میں قانونی طور پر نہیں لے سکے گا۔  
وجہ  تیرہ پونڈ میں لے تب بھی مرابحہ ہوگا اور پندرہ پونڈ میں لے تب بھی مرابحہ ہے ۔دونوں صورتوں میں مرابحہ ہی ہے۔ اور بائع نے لفظ مرابحہ بولا ہے جس میں وہ سچ ہے اس لئے خریدے تو پندرہ میں خریدے۔ البتہ دو پونڈ کا جھوٹ بولا ہے اس لئے مشتری کو اختیار ہے لے یا نہ لے۔ یہ مسئلہ اس اصول پر ہے کہ بائع جو لفظ مرابحہ بولا ہے اس میں وہ سچ ہے۔ جھوٹ بولنے پر مشتری کو رد کرنے کا خیار ہوگا۔ اس کا اشارہ اس حدیث میں ہے  عن ابی ذر عن النبی ۖ قال ثلاثة لا ینظر اللہ الیھم یوم القیامة ولا یزکیھم ولھم عذاب الیم۔قلنا من ھم یا رسول اللہ؟ فقد خابوا وخسروا فقال المنان والمسبل ازارہ والمنفق سلعتہ بالحلف الکاذب (الف) (ترمذی شریف، باب ماجاء فیمن حلف علی سلعة کاذبا ص ٢٣٠ نمبر ١٢١١) اس حدیث میں اشارہ ہے کہ جو جھوٹی قسم کھا کر اپنے سامان کا بھاؤ بڑھائے اس پر اللہ کاعذاب ہے۔  
نوٹ  اگردونوں جھوٹ کے تین پونڈ کم کرکے لینے دینے پر راضی ہو جائیں تو ایسا کر سکتے ہیں۔ البتہ قانونی طور پر بائع کو اس پر مجبور نہیں کر سکتے۔

حاشیہ  :  (الف) آپۖ نے فرمایا تین آدمیوں کو اللہ قیامت کے روز نہیں دیکھے گا اور نہ ان کو پاک صاف کرے گا اور ان کے لئے درد ناک عذاب ہوگا۔میں نے کہا اے اللہ کے رسول خائب و خاسر ہو جائیںوہ کون ہیں؟پس آپۖ نے فرمایا احسان جتانے والا،ازار لٹکانے والااور جھوٹی قسم کھا کر سامان بیچنے والا۔

Flag Counter