Deobandi Books

شرح ثمیری شرح اردو قدوری جلد 2 - یونیکوڈ

67 - 457
شرط اکثر منہ فالشرط باطل ویرد بمثل الثمن الاول]٩١٢[ (٣) وھی فسخ فی حق المتعاقدین بیع جدید فی حق غیرھما فی قول ابی حنیفة رحمہ اللہ تعالی]٩١٣[ (٤) وھلاک الثمن لا یمنع صحة الاقالة وہلاک المبیع یمنع صحتھا]٩١٤[ (٥) وان 

نوٹ  ثمن پر اس وقت اقالہ ہوگا جبکہ مبیع میں کوئی عیب نہ ہوا ہو۔اگر مبیع میں عیب ہو گیا تو مشتری کم قیمت واپس کر سکتا ہے۔
]٩١٢[(٣)اقالہ متعاقدین کے حق یں فسخ ہے اور ان دونوں کے علاوہ کے حق میں بیع جدید ہے امام ابو حنیفہ کے قول میں۔  
تشریح  جب اقالہ کیا تو بائع اور مشتری کے درمیان پہلے ہی بیع کا فسخ ہے ۔وہی بیع ٹوٹی ہے لیکن ان دونوں کے علاوہ جو لوگ ہیں ان کے حق میں بیع جدید ہے۔گویاکہ مشتری بائع سے نئی بیع کر رہا ہے ۔کیونکہ وہ دیکھ رہا ہے کہ مبیع مشتری کے ہاتھ سے نکل کر بائع کے ہاتھ میں جا رہی ہے اور ایجاب اور قبول بھی ہو رہے ہیں۔ اس لئے تیسرے آدمی کے حق میں بیع جدید ہے۔یہی وجہ ہے کہ اس موقع پر کوئی حق شفعہ کا دعوی کرے نا چاہے تو کر سکتا ہے۔  
وجہ  اوپر اثر گزر چکا ہے کہ متعاقدین کے حق میں فسخ ہے  عن ابن عباس انہ کرہ ان یبتاع البیع ثم یردہ و یردمعہ دراھم وفی ھذا دلالة علی ان الاقالة فسخ فلا تجوز الا برأس المال(الف) (سنن للبیھقی، باب من اقال المسلم الیہ بعض المسلم وقبض بعضا ج سادس ص ٤٥،نمبر١١١٣٣) اس اثر میں ہے کہ اقالہ متعاقدین کے حق میں فسخ ہے۔البتہ تیسرے کے حق میں بیع جدید ہوگی۔
]٩١٣[(٤) اور ثمن کا ہلاک ہونا اقالہ کے صحیح ہونے کو نہیں روکتا اور مبیع کا ہلاک ہونا اس کے صحیح ہونے کو روکتا ہے۔  
تشریح  ثمن ہلاک ہو جائے ،بائع کے پاس نہ رہے تب بھی اقالہ ہو سکتا ہے۔لیکن مشتری کے پاس مبیع ہلاک ہو جائے تو اقالہ نہیں ہو سکے گا۔  وجہ  (١) اصل واپسی مبیع کی ہے ۔وہی متعین کرنے سے متعین ہوتی ہے۔قیمت اور روپیہ تو کوئی سا بھی دے گا ۔اس لئے اگر مبیع ہلاک ہو جائے تو کس چیز کو واپس کرے گا ؟ اس لئے مبیع ہلاک ہونے کے بعد اقالہ نہیں ہو سکے گا۔اور ثمن ہلاک ہو جائے تو یہ پونڈ نہیں دوسرے پونڈ بائع واپس کردے گا۔اس لئے ثمن کے ہلاک ہونے کے باوجود اقالہ ہو سکتا ہے۔  
اصول  اقالہ میں اصل واپسی مبیع کی ہوتی ہے۔
]٩١٤[(٥)اگر بعض مبیع ہلاک ہو جائے تو باقی میں اقالہ جائز ہے۔  
وجہ  مثلا چھ کیلو گیہوں دس روپے میں خریدے تھے۔پھر تین کیلو گیہوں ہلاک ہو گئے تو باقی ماندہ تین کیلو گیہوں واپس کر سکتا ہے اور پانچ روپے واپس لے سکتا ہے۔  
وجہ  اقالہ اتنے ہی میں ہورہا ہے جتنی مبیع موجود ہے اس لئے اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔  

حاشیہ  :  (الف)حضرت عبد اللہ ابن عباس نا پسند کرتے تھے کہ آدمی بیع کرے پھر اس کو واپس لوٹائے اور اس کے ساتھ کچھ درہم لوٹائے۔اور اس میں اشارہ ہے اس بات کا کہ اقالہ فسخ بیع ہے۔اس لئے نہیں جائز ہے اقالہ مگر رأس المال یعنی پہلی قیمت کے ساتھ۔

Flag Counter