Deobandi Books

شرح ثمیری شرح اردو قدوری جلد 2 - یونیکوڈ

63 - 457
غیرہ]٩٠٥[ (٢٤) وعن تلقی الجلب]٩٠٦[ (٢٥) وعن بیع الحاضر للبادی۔

اصول  کسی کو نقصان دینا یا متوحش کرنا مکروہ ہے۔   حدیث   لاضرر ولا ضرار گزر چکی ہے۔  
لغت  السوم  :  بھاؤ کرنا۔
]٩٠٥[(٢٤)اور روکا آپۖ نے سوداگروں سے مل جانے سے۔  
تشریح  تلقی کا ترجمہ ہے آگے بڑھ کر کسی سے ملنا۔ اور جلب کا ترجمہ ہے کھینچنا یا منفعت کو کھینچنا۔یہاں تلقی الجلب کا مطلب یہ ہے کہ باہرسے سوداگر سامان بیچنے آئے تو شہر سے باہر جاکر ان سے ملاقات کرے اور کم داموں میں تمام سامان خرید لے۔تاکہ بعد میں وہ سامان شہروالوں کو مہنگی قیمت میں بیچے۔اس کو  ' تلقی الجلب'  کہتے ہیں۔اس کے مکروہ ہو نے کی ۔
 وجہ  (١) کبھی سوداگر کو دھوکہ دیا جاتا ہے کہ شہر کی صحیح قیمت سے آگاہ نہیں کیا جاتا اور سوداگر سے مال سستا خرید لیتا ہے ۔اس میں سودا گروں کا نقصان ہوتا ہے۔جس کی وجہ سے مکروہ ہے (٢) کبھی یہ ہوتا ہے کہ شہر والوں کو مثلا غلوں کی سخت ضرورت ہے ،باہر سے آیا ہوا غلہ کچھ مخصوص تاجروں نے خرید لیا اب شہر والوں کو غلہ نہیں ملے گایا بہت مہنگا ملے گا۔اس صورت میں شہر والوں کا نقصان ہوگا۔ اس لئے بھی تلقی الجلب مکروہ ہے(٣) حدیث میں تلقی الجلب سے منع فرمایا گیا ہے۔عن ابی ھریرة قال نھی النبی ۖ عن التلقی وان یبیع حاضر لباد (الف) (بخاری شریف ، باب النھی عن تلقی الرکبان ص ٢٨٩ نمبر ٢١٦٢ مسلم شریف ، باب تحریم تلقی الجلب ص ٤ نمبر ١٥١٩) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ حضورۖ نے تلقی الجلب سے منع فرمایا ہے۔  
اصول  اہل شہر کو نقصان ہوتو یہ بیع مکروہ ہے۔  
نوٹ  اگر اہل شہر کو اس غلے کی ضرورت نہیں اور آنے والے قافلے کو بھی قیمت بتانے میں دھوکہ نہیں دیا تو پھر تلقی الجلب مکروہ نہیں ہے۔
]٩٠٦[(٢٥)اور آپۖ نے منع فرمایا شہروالوںکی بیع دیہات والوں سے۔  
تشریح  شہروالوں کو مثلا غلوں کی سخت ضرورت ہے اس کے باوجود تاجر دیہات سے آنے والے لوگوں سے زیادہ قیمت میں غلہ بیچ رہے ہیںتو یہ مکروہ ہے۔  
وجہ  کیونکہ اس سے شہر والوں کو نقصان ہوگا ۔وہ  محتاج ہیں اور ان کا زیادہ حق ہے (٢) حدیث میں منع فرمایا گیا ہے  عن ابی ھریرة قال نھی النبی ۖ عن التلقی وان یبیع حاضر لباد (ب) (بخاری شریف ، باب النھی عن تلقی الرکبان ص ٢٨٩ نمبر ٢١٦٢ مسلم شریف ، باب تحریم بیع الحاضر للبادی ص ٤ نمبر ١٥٢٠) اس حدیث میں منع فرمایا گیا ہے کہ شہر والے دیہات والوں سے ضرورت کے وقت سامان فروخت کرے۔اور شہروالوں کو ضرورت نہ ہو تو دیہات والوں سے بیچ سکتا ہے۔اس کی دلیل یہ اثر ہے سألت ابن عباس ما معنی قولہ لا یبیعن حاضر لباد؟ قال لا یکون لہ سمسار (ج) (بخاری شریف، باب النھی عن تلقی الرکبان ص ٢٨٩ نمبر ٢١٦٣ مسلم شریف ، باب 

حاشیہ  :  (الف) آپۖ نے تلقی بالجلب سے روکا اور اس سے بھی کہ شہر والے دیہات والے سے بیچے(ب) آپۖ نے تلقی بالجلب سے روکا اور اس سے بھی کہ شہر والے دیہات والے سے بیچے(ج) حضرت عبد اللہ بن عباس سے لایبیعن حاضر لباد کا مطلب پوچھا تو فرمایا کہ ان کے لئے دلال نہ بنے، سمسار دلال کو کہتے ہیں۔

Flag Counter