Deobandi Books

شرح ثمیری شرح اردو قدوری جلد 2 - یونیکوڈ

59 - 457
الیھود اذا لم یعرف المتبایعان ذلک فاسد]٨٩٩[ (١٨) ولا یجوز البیع الی الحصاد والدیاس والقطاف وقدوم الحاج فان تراضیا باسقاط الاجل قبل ان یأخذ الناس فی الحصاد والدیاس وقبل قدوم الحاج جاز البیع ]٩٠٠[(١٩) واذا قبض المشتری المبیع 

اصول  اجل مجہول ہو تو بیع فاسد ہوگی۔  
نوٹ  اگر بائع یا مشتری کو نیروز اور مہرجان یا صوم نصاری یا افطار یہود کا وقت اور تاریخ معلوم ہو تو اجل معلوم ہونے کی وجہ سے بیع جائز ہوگی۔
]٨٩٩[(١٨)نہیں جائز ہے بیع کھیتی کٹنے تک اور گاہنے تک اور پھل توڑنے تک اور حاجی کے آنے تک ،پس اگر ان مدتوں کے ساقط کرنے پر بائع اور مشتری راضی ہو جائیں لوگوں کے کٹنے میں لگنے سے پہلے اور گاہنے میںلگنے سے پہلے اور حاجی کے آنے سے پہلے تو بیع جائز ہو جائیگی۔  
تشریح  کسی نے یوں کہا کہ کھیتی کٹنے کے دن مبیع دوںگا ،یا کھتی کٹنے کے دن بیع کروں گا یا گیہوں گاہنے کے دن مبیع دونگا یا گیہوں گاہنے کے دن بیع کروںگا یا پھل توڑنے کے دن بیع کروںگا یا مبیع دوںگا یا حاجی آنے کے دن بیع کروںگا یا مبیع دوںگا تو یہ دن متعین نہیں ہیں۔پہلے بھی ہو سکتے ہیں اور بعد میں بھی ۔کس دن کھیتی کاٹے گا معلوم نہیں۔اس لئے اجل اور مدت مجہول ہونے کی وجہ سے یہ بیع فاسد ہے۔ اگر یہ دن متعین ہو جائے تو جائز ہو جائے گی۔ہاں ! اگر یہ دن آنے سے قبل ان مدتوں کو ساقط کردے تو فساد شامل ہونے سے پہلے ساقط ہو گیا اس لئے بیع جائز ہو جائے گی۔اصل قاعدہ یہ ہے کہ مدت میں جہالت ہوگی تو بیع فاسد ہو گی اور جھگڑا ہونے سے پہلے یا فساد کے گھسنے سے پہلے جہالت ساقط ہو جائے تو بیع جائز ہو جائے گی۔مسئلہ نمبر ١٧ کی حدیث (بخاری ژریف نمبر ٢٢٥٣ مسلم شریف نمبر ١٦٠٤) کے علاوہ یہ اثر بھی ہے ۔ عن ابن عباس قال لا سلف الی العطاء ولا الی الحصاد ولا الی الاندر (الف) (سنن للبیھقی ، باب لایجوز السلف حتی یکون بثمن معلوم فی کیل او وزن معلوم الی اجل ج سادس، ص ٤١،نمبر١١١١٥ ) اس اثر میں ہے کہ کاٹنے تک اور گاہنے تک کی بیع صحیح نہیں ہے۔کیونکہ متعین نہیں ہے کہ کس دن کھیتی کاٹے گا اور کس دن گاہے گا۔  
نوٹ  ان شرطوں میں اجل مجہول تو ہے لیکن کم مجہول ہے اس لئے اگر وقت سے پہلے جہالت ساقط کر دے تو بیع جائز ہو جائے گی۔  
لغت  الحصاد  :  کھیتی کاٹنا۔  دیاس  :  کھیتی کو گاہنا۔  قطاف  :  پھل توڑنا۔
(  حکم البیع الفاسد  )
]٩٠٠[(١٩) اگر مشتری نے بیع فاسد میں بائع کے حکم سے مبیع پر قبضہ کر لیا اور عقد میں دونوں عوض مال ہیں تو مشتری بیع کا مالک ہو جائے گا۔اور اس پر مبیع کی قیمت لازم ہوگی ۔اور بائع اور مشتری میں سے ہر ایک کے لئے جائز ہے کہ کہ بیع کو فسخ کر دے۔پس اگر مشتری نے مبیع کو بیچ دیا تو اس کی بیع نافذ ہو جائے گی۔  

حاشیہ  :  (الف) حضرت ابن عباس نے فرمایا عطیہ ملنے تک بیع نہ کریں نہ کھیتی کٹنے تک اور نہ گاہنے تک ۔الاندر  :  کاشت کو گاہنا۔

Flag Counter