Deobandi Books

شرح ثمیری شرح اردو قدوری جلد 2 - یونیکوڈ

58 - 457
اشتری ثوبا علی ان یقطعہ البائع ویخیطہ قمیصا او قباء او نعلا علی ان یحذوھا او یشرکھا فالبیع فاسد ]٨٩٨[(١٧) والبیع الی النیروزوالمھرجان وصوم النصاری وفطر 

فائدہ ہے۔اور پہلے گزر چکا ہے کہ بیع کے خلاف ایسی شرط لگائی جس میں کسی کا فائدہ ہو تو بیع فاسد ہو جائے گی۔یہاں مشتری کا فائدہ ہے اس لئے بیع فاسد ہوگی۔  
وجہ  اس صورت میں ایک تو بیع ہوئی اورالگ سے کاٹنے اور سینے کی شرط لگائی تو یہ اجارہ ہوا اور ایک ہی بیع میں دو معاملہ کرنا ممنوع ہے۔یہ تو ایک بیع میں دو بیع کرنے کی طرح ہوا۔اور حدیث میں اس سے منع فرمایا ہے  عن ابی ھریرة قال قال رسول اللہ ۖ من باع بیعتین فی بیعة فلہ اوکسھما او الربا (الف)(ابو داؤد ، باب فیمن باع بیعتین فی بیعة ص١٣٤ نمبر ٣٤٦١ ترمذی شریف ، باب ماجاء فی النھی عن بیعتین فی بیعة ص ٢٣٣ نمبر ١٢٣١) اس حدیث میں ایک بیع دو بیوع گھسانے سے منع فرمایا گیا ہے۔اس لئے بیع کے ساتھ اجارہ کی شرط لگانے سے بیع فاسد ہو جائے گی۔  
نوٹ  اس مسئلہ کی شرط میں مشتری کا فائدہ ہے اور ایک بیع کے ساتھ دوسری بیع یعنی اجارہ کی شرط لگائی ہے اس لئے بیع فاسد ہوئی۔  
فائدہ  کچھ ملکوں میں یہ رواج ہے کہ چپل کو برابر کرکے اور تسمہ لگا کر ہی دیتے ہیں ۔اور یہ عام متعارف ہے کہ دکان سے چپل یا جوتا اسی وقت خریدے گا جب وہ بنا کر اور تسمہ لگا کر دے اس لئے ان ملکوں میں عام تعارف کی وجہ سے بیع فاسد نہیں ہوگی۔اس کو بیٹھ بنوانا کہتے ہیں۔  
لغت  نعل  :  جوتا یا چپل۔  یحذو  :  ایک چپل کو دوسرے چپل کے برابر کاٹنے کو یحذو کہتے ہیں۔  یشرک  :  چپل میں پٹی لگانا یا چپل کو گانٹھنا۔
]٨٩٨[(١٧) اور بیچنا نیروز کے دن تک اور مہرجان کے دن تک اور نصاری کے روزے کے دن تک اور یہودی کے افطار کے دن تک جبکہ بائع اور مشتری ان دونوں کو نہ جانتے ہوں تو بیع فاسد ہے۔  
تشریح  یوں کہا کہ میں نیروز کے دن بیع کرتا ہوں،شمسی سال کے پہلے دن کو نیروز کہتے ہیں۔اور پارسیوں کے عید کے دن کو مہرجان کہتے ہیں ۔اب ان دنوں میں بیع کیا اور بائع اور مشتری کو یہ معلوم نہیں ہے کہ نیروز کس دن ہے اور مہرجان کس دن ہے تو وقت مجہول ہو گیا اس لئے بیع فاسد ہوگی۔   
وجہ  حدیث میں گزر چکا ہے کہ بیع میں اجل معلوم ہونا چاہئے ۔عن ابن عباس قال قدم النبی ۖ المدینة وھم یسلفون فی الثمار السنتین والثلاث فقال اسلفوا فی الثمار فی کیل معلوم الی اجل معلوم (ب)(بخاری شریف ، باب السلم الی اجل معلوم ص ٣٠٠ نمبر ٢٢٥٣ مسلم شریف ، باب السلم ص ٣١ نمبر ١٦٠٤) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ بیع میں اجل معلوم ہو تب بیع جائزہوگی ۔ ورنہ مشتری جلدی مانگے گا اور بائع مبیع دیر کر کے دے گا۔اس لئے بیع فاسد ہوگی ۔

حاشیہ  :  (الف) آپۖ نے فرمایا جس نے ایک بیع میں دو بیع کی تو اس کے لئے کم درجہ والی ہے یا سود کی شکل والی ہے(ب) آپۖ مدینہ تشریف لائے تو وہ لوگ دو سال تین سالوں کے لئے پھلوں کی بیع کرتے تھے تو آپۖ نے فرمایا پھلوں میں بیع کرو،کیل معلوم ہو اور مدت معلوم ہو۔

Flag Counter