Deobandi Books

شرح ثمیری شرح اردو قدوری جلد 2 - یونیکوڈ

56 - 457
امة علی ان یستولدھا فالبیع فاسد]٨٩٤[ (١٣)وکذلک لو باع عبدا علی ان یستخدمہ البائع شھرا او دارا علی ان یسکنھا البائع مدة معلومة او علی ان یقرضہ المشتری درھما 

اصول  ایسی شرط جو بیع کے مخالف ہو اور بائع یا مشتری یا مبیع کا فائدہ ہو اور مبیع انسان ہو تو اس سے بیع فاسد ہو جائے گی۔  
فائدہ  امام شافعی فرماتے ہیںکہ اس میں انسان کا فطری فائدہ ہے اس لئے ایسی شرط لگا کر بیچنا جائز ہے۔کیونکہ حضرت عائشہ نے حضرت بریرہ کو آزاد کرنے کی شرط سے خریدا تھا جیسا کہ اوپر حدیث گزری (بخاری شریف، نمبر ٢١٦٨٫ مسلم شریف نمبر ١٥٠٤)  
لغت  یدبرہ  :  مدبر بنادے،مولی غلام سے کہے کہ تم میرے مرنے کے بعد آزاد ہو۔  یکاتبہ  :  مکاتب بنائے،مولی غلام سے کہے کہ اتنے روپے ادا کرو تو تم آزاد ہوجاؤگے اس کو مکاتب بنانا کہتے ہیں۔  لیستولدھا  :  ام ولد بنائے،باندی سے وطی کرے پھر اس سے مولی کا بچہ پیدا ہو تو اس کی ماں یعنی باندی ام ولد ہو جاتی ہے۔اور مولی کے مرنے کے بعد وہ آزاد ہو جائے گی۔ایسی باندی کو ام ولد کہتے ہیں۔
]٨٩٤[(١٣)ایسے ہی غلام بیچا اس شرط پر کہ اس سے بائع ایک ماہ تک خدمت لے گا یا گھر بیچا اس شرط پر کہ اس میں بائع ایک مدت معلوم تک ٹھہرے گا یا اس شرط پر کہ مشتری اس کو کچھ درہم قرض دے گا یا اس شرط پر کہ مشتری اس کو ہدیہ دے گا تو بیع فاسد ہے ۔
 تشریح  اس عبارت میں چار مسئلے بیان کئے گئے ہیں۔اور چاروں بیوع کے فاسد ہونے کی وجہ یہ ہے کہ بائع بیع کے خلاف شرطیں لگا رہا ہے جس میں بائع کا فائدہ ہے اور پہلے اصول گزر چکا ہے کہ بیع کے خلاف شرط ہو اور بائع یا مشتری کا فائدہ ہو تو بیع فاسد ہو جاتی ہے۔ مثلا بائع نے غلام بیچا اس شرط پر کہ غلام ایک ماہ تک بائع کی خدمت کرے گا تو بیع فاسد ہوگی۔کیونکہ غلام تو بکتے ہی مشتری کا ہو جائے گا تو بائع کی خدمت کیوں کرے ؟ یا اس شرط پر گھر بیچا کہ بائع اس میں ایک مدت معلوم مثلا ایک ماہ تک مقیم رہے گا۔یا اس شرط پر بیچا کہ مشتری بائع کو کچھ پونڈ قرض دے گا یا  ہدیہ دیگا تو یہ شرطیں فاسد ہیں اس لئے ان سے بیع فاسد ہو جائے گی۔اس اثر سے بھی خدمت کی شرط لگانے کی ممانعت معلوم ہوتی ہے  ان عمر ابن الخطاب اعطی امرأة عبد اللہ بن مسعود جاریة من الخمس فباعتھا من عبد اللہ بن مسعود بالف درھم واشترطت علیھا خدمتھا فبلغ عمر بن خطاب فقال یا ابا عبد الرحمن اشتریت جاریة امرأتک فاشترطت علیک خدمتھا فقال نعم فقال لا تشترھا وفیھا مثنویة (سنن للبیھقی ، باب من باع حیوانا او غیرہ واستثنی منافعہ مدة ج خامس ص٥٤٩، نمبر١٠٨٣٥)حدیث اور اصول پہلے گزر چکے ہیں۔اس مسئلہ میں بائع کے فائدے کی شرط ہے اس لئے بیع فاسد ہوگی۔  
فائدہ  بعض حضرات کی رائے ہے کہ ایسی شرط پر بائع اور مشتری راضی ہو جائیں تو جائز ہے۔  
وجہ  حدیث میں ہے کہ آپۖ نے جابر بن عبد اللہ سے اونٹ خریدا اور حضرت نے شرط لگائی کہ گھر تک اس پر سوار ہو کر جاؤںگا پھر اونٹ آپ کے حوالے کروںگا۔حدثنی جابر بن عبد اللہ انہ کان یسیر علی جمل لہ قد اعیا ... ثم قال بعنیہ فبعتہ بوقیة و استثنیت علیہ حملانہ الی اھلی فلما بلغت اتیتہ بالجمل فنقدنی ثمنہ (الف) (مسلم شریف ، باب البعیر واستثناء رکوبہ ج ثانی 

حاشیہ  :  (الف) حضرت جابر بیان فرماتے ہیں کہ وہ ایک اونٹ پر سوار تھے جو تھک چکا تھا ...پھر آپۖ نے فرمایا اس اونٹ کو میرے ہاتھ بیچ دو۔حضرت فرماتے ہیں کہ چالیس درہم میں میں نے اس کو بیچ دیا اور میرے اہل یعنی مدینہ تک اس پر سوار ہونا مستثنی کر لیا ۔پس جب مدینہ پہنچا تو اونٹ لیکر آپ کے  (باقی اگلے صفحہ  پر)

Flag Counter