Deobandi Books

شرح ثمیری شرح اردو قدوری جلد 2 - یونیکوڈ

55 - 457
من ثوبین]٨٩٣[(١٢) ومن باع عبدا علی ان یعتقہ المشتری او یدبرہ او یکاتبہ او باع 

تشریح  دو کپڑے مختلف انداز کے ہیں اور ایجاب کرتے وقت یہ نہیں بتا رہا ہے کہ دونوں میں سے کس کپڑے کی بیع ہو رہی ہے ،صرف یوں کہہ رہا ہے کہ دونوں کپڑوں میں سے ایک کی بیع ہو رہی ہے تو چونکہ مبیع مجہول ہے بعد میں کپڑا سپرد کرنے میں جھگڑا ہوگا اس لئے یہ بیع فاسد ہوگی۔حدیث گزر چکی ہے۔  
نوٹ  مجلس ختم ہونے سے پہلے ایک کپڑے کی تعیین ہو جائے تو بیع جائز ہو جائے گی۔  
اصول  مجہول مبیع کی بیع فاسد ہے۔
]٨٩٣[(١٢)کسی نے غلام بیچا اس شرط پر کہ مشتری اس کو آزاد کرے گایا اس کو مدبر بنائے گا یا اس کو مکاتب بنائے گا یا باندی بیچی اس شرط پر کہ اس کو ام ولد بنائے گا تو بیع فاسد ہے۔  
تشریح  یہ مسائل اس اصول پر ہیں کہ بیع کے ساتھ ایسی شرط لگائی جو بیع کے موافق نہیں ہے تو وہ بیع فاسد ہو جائے گی۔شرط لگانے کی چار صورتیں ہیں (١) ایسی شرط جو خود بیع کے موافق ہے ،مثلا بیع اس لئے کرتا ہوں کہ مشتری کا قبضہ ہو جائے تو شرط خود بیع کا مقتضاء ہے اس لئے اس سے بیع فاسد نہیں ہوگی (٢) ایسی شرط لگائی جو بیع کے موافق نہیں ہے البتہ بائع کا فائدہ ہے ،مثلا اس شرط پر گھر بیچتا ہوں کہ دو ماہ تک اس میں رہوں گا۔اس صورت میں بیع فاسد ہو جائے گی (٣) اس شرط پر بیع کرے کہ مشتری کا فائدہ ہو مثلا اس شرط پر خریدتا ہوں کہ مجھے مزید قرض دیںگے۔اس صورت میں بیع فاسد ہو جائے گی(٤) اور شرط کی چوتھی صورت یہ ہے کہ ایسی شرط لگائے جس میں خود مبیع کا فائدہ ہو اور مبیع غلام یا باندی ہو جو قاضی کے قضا تک پہنچ سکتا ہو ۔اس صورت میں مبیع کا فائدہ ہے اور مبیع جھگڑا کر سکتا ہے اس لئے اس صورت میں بھی بیع فاسد ہوگی۔اوپر کا مسئلہ اسی چوتھی قسم کی شرط پر متفرع ہے۔کیونکہ غلام کو آزاد کرنے،اس کو مدبر بنانے اور اس کو مکاتب بنانے میں خود مبیع کا فائدہ ہے اور مبیع انسان ہے اس لئے جھگڑا بھی کر سکتا ہے اس لئے بیع فاسد ہوگی۔  
وجہ  شریعت کے خلاف شرط لگانے سے حدیث میں منع فرمایا  عن عائشة قالت ...ثم قال ۖ اما بعد ما بال رجال یشترطون شروطا لیست فی کتاب اللہ ؟ ما کان من شرط لیس فی کتاب اللہ فھو باطل وان کان مائة شرط قضاء اللہ احق وشرط اللہ اوثق (الف) (بخاری شریف ، باب اذا اشترط فی البیع شروطا لا تحل ص ٢٩٠ نمبر ٢١٦٨ مسلم شریف ، باب بیان ان الولاء لمن اعتق ج اول ص ٤٩٣ نمبر ٣٧٧٧١٥٠٤)اس حدیث میں بتایا گیا ہے شریعت کے خلاف جو بھی شرط لگائے اس کا اعتبار نہیں ہے (٢) دوسری حدیث میں ہے  عبد اللہ بن عمر قال قال رسول اللہ ۖ لا یحل سلف و بیع ولا شرطان فی بیع (ب) (ابو داؤد شریف ، باب فی الرجل یبیع مالیس عندہ  ج ثانی ص ١٣٩ نمبر ٣٥٠٤) اس حدیث میں ہے کہ دو شرطیں لگانا ممنوع ہے۔اور خاص طور پر جس شرط لگانے سے جھگڑے کا خطرہ ہو اس سے بیع فاسد ہو جائے گی۔  

حاشیہ  :  (الف) آپۖ نے فرمایا اما بعد ! لوگوں کو کیا ہوا کہ شرط لگاتے ہیں ایسی شرط جو اللہ کی کتاب میں نہیں ہے،جو شرط اللہ کی کتاب میں نہ ہو تو وہ باطل ہے اگرچہ سو شرطیں ہوں۔اللہ کا فیصلہ زیادہ حقدار ہے اور اللہ کی شرط زیادہ مضبوط ہے(ب) ّپۖ نے فرمایا نہیں حلال ہے ادھار بیچنا اور بیع کرنا اور نہ دو شرطیں ایک بیع میں۔

Flag Counter