Deobandi Books

شرح ثمیری شرح اردو قدوری جلد 2 - یونیکوڈ

53 - 457
الغائض ]٨٩٠[(٩) ولا بیع المزابنة وھو بیع التمر علی النخل بخرصة تمرا۔ 

ت  الغائص  :  غوطہ لگانے والا۔
]٨٩٠[(٩)اور نہیں جائز ہے بیع مزابنہ،وہ یہ ہے کہ کھجور کی بیع کھجور کے درخت پر ٹوٹے ہوئے کھجور سے اندازہ کرکے۔  
تشریح  کھجور کے درخت پر کھجور لگا ہوا ہو اس کو ٹوٹے ہوئے کھجور کے بدلے میں بیچے تو یہ بیع فاسد ہے ۔
 وجہ  (١) ادھر بھی کھجور ہے اور درخت پر بھی کھجور ہے لیکن درخت پر کھجور کتنا ہے اس کا اندازہ نہیں ہے اس لئے کھجور کے بدلے میں کھجور کمی بیشی ہوگی تو ربو ااور سود ہو جائے گااس لئے جائز نہیں ہے (٢) مزابنہ کے ناجائز ہونے کی یہ دلیل یہ حدث ہے  عن ابی سعید الخدری ان رسول اللہ ۖ نھی عن المزانبة والمحاقلة ،والمزابنة اشتراء التمر بالتمر علی رؤوس النخل (الف) (بخاری شریف ، بیع المزانبة وھی بیع التمر بالثمر ص ٢٩١ نمبر ٢١٨٦ مسلم شریف ، باب النھی عن المحاقلة والمزابنة ج ثانی ص ١٠ نمبر١٥٣٩) اس حدیث میں مزانبہ کو حضورۖ نے منع فرمایا ہے۔  
فائدہ  امام شافعی کے نزدیک پانچ وسق سے کم میں جائز ہے۔  
وجہ  کیونکہ عرایا میں حضورۖ نے اجازت دی ہے۔اور عرایا کی شکل یہ ہے کہ ٹوٹے ہوئے کھجور کے بدلے درخت پر لگے ہوئے کھجور کو خریدے ۔ حدیث میں ہے  عن ابی ھریرة ان النبی ۖ رخص فی بیع العرایا فی خمسة اوسق او دون خمسة اوسق قال نعم (ب) (بخاری شریف، باب بیع التمر علی رؤوس النخل بالذھب والفضة ص ٢٩١ نمبر ٢١٩٠ مسلم شریف ، باب تحریم بیع الرطب بالتمر الا فی العرایا ص ٨ نمبر ١٥٤١) اس حدیث میں آپۖنے عرایا کی بیع کرنے کی اجازت دی اگر پانچ وسق سے کم ہو،اور بعض حدیث میں ہے کہ ایک دو درخت ہو تو جائز ہے۔
حنفیہ کے نزدیک عرایا اصل میں درخت کے مالک کی جانب سے ہدیہ ہے بیع نہیں ہے۔صرف بیع کی صورت ہے۔اور اس کی وجہ یہ ہے کہ اہل عرب مساکین کو ایک دو درخت کھانے کے لئے ہدیہ دے دیا کرتے تھے۔لیکن غربت کی وجہ سے وہ کھجور پکنے تک صبر نہیں کر پاتے تو اس درخت کے کھجور کے بدلے مالک درخت سے کٹے ہوئے کھجور دے دیا کرتے تھے۔جو صورت میں بیع ہے لیکن حقیقت میں پہلے والا ہدیہ ہی کٹے ہوئے کھجور کی صورت میں دینا ہے ۔خود امام بخاری نے سفیان بن حسین کے واسطے سے عرایا کی یہی تفسیر بیان کی ہے۔عبارت یہ ہے  عن سفیان بن حسین العرایا نخل کانت توھب للمساکین فلا یستطیعون ان ینتظروا بھا فرخص لھم ان یبیعواھابما شاء وا من التمر (ج) (بخاری شریف ، باب تفسیر العرایا ص ٢٩٢ نمبر ٢١٩٢) اس اثر سے معلوم ہوا کہ ہدیہ کے بدلے درخت کا مالک ہدیہ دے رہا ہے یہی عرایا ہے۔اور اس کی گنجائش ہمارے یہاں بھی ہے۔  

حاشیہ  :  (الف) آپۖ نے مزانبہ اور محاقلہ کی بیع سے روکا ،مزانبہ کی تفسیر یہ ہے کہ کھجور کے درخت پر کھجورہو اس کے بدلے میں کھجور خریدے(ب) آپۖ نے عرایا کی بیع میں رخصت دی پانچ وسق یا اس سے کم میں فرمایا ہاں(ج) سفیان بن حسین نے فرمایا عرایا کھجور کا درخت ہوتا ہے۔اس کو مساکین کو ہبہ کردے پھر وہ انتظار نہ کر سکے تو ان مسکینوں کے لئے رخصت ہے کہ اس کو جتنے کھجور میں چاہے بیچے۔

Flag Counter