Deobandi Books

شرح ثمیری شرح اردو قدوری جلد 2 - یونیکوڈ

50 - 457
]٨٨٤[(٣) ولا یجوز بیع السمک فی الماء قبل ان یصطادہ ولا بیع الطائر فی الھوائ۔  

ثانی ص ١٩٥ نمبر ٣٩٥٥) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ مدبر غلام بیچا جا سکتا ہے کیونکہ حضورۖ نے بیچا ہے۔
مکاتب کو بھی بیچنا اس لئے جائز نہیں ہے کہ اس میں بھی آزادگی کا شائبہ آ چکا ہے۔دوسری وجہ یہ ہے کہ اس نے کچھ روپیہ مال کتابت ادا کرکے مولی سے اپنے آزاد ہونے کا پروانہ اور عہد لے لیا ہے۔ اب اگر اس کو بیچ دیا جائے تو عہد کے خلاف ہوگا اور آزادگی کا شائبہ ختم ہو جائے گا۔اس لئے مکاتب کو بیچنا جائز نہیں ۔ہاں ! اگر وہ خود راضی ہو کہ مجھے بیچ دیا جائے اور مکاتبت توڑ دیا جائے تو ایسا ہوگا کہ وہ گویا کہ مکمل غلامیت کی طرف لوٹ رہا ہے اور اپنی مرضی سے بکنے پر راضی ہے۔چنانچہ حضرت بریرہ مکاتبہ تھی۔ اور اپنی مرضی سے بکنے پر راضی ہوئی تھی۔ اور حضرت عائشہ نے ان کو خریدا تھا۔حدیث میں ہے  دخلت بریرة وھی مکاتبة فقال اشترینی فاعتقینی قالت (عائشة) نعم (الف) (بخاری شریف ، باب اذا قال المکاتب اشترنی واعتقنی فاشتراہ لذلک ص ٣٤٩ نمبر ٢٥٦٥ ابو داؤد شریف، باب فی بیع المکاتب اذا فسخت المکاتبة ج ثانی ص ١٩٢ نمبر ٣٩٢٩) اس حدیث سے ثابت ہوا کہ مکاتب خود بکنے پر راضی ہو جائے اور مکاتب توڑ دے تو اس کو بیچا جا سکتا ہے ورنہ نہیں۔  
اصول  جو چیز مال نہ ہو اس کی بیع باطل ہے۔
]٨٨٤[(٣)نہیں جائز ہے مچھلی کی بیع پانی میں اس کو شکار کرنے سے پہلے اور نہ پرندے کی بیع ہوا میں۔  
تشریح مبیع اگر چہ مال ہو لیکن قبضہ میں نہ ہو کہ فورا مشتری کے حوالے کر سکے تو اس کی بیع جائز نہیں ہے۔کیونکہ اس کو حوالے کرنا مشکل ہے۔اسی قاعدے پر مچھلی پانی میں ہو ابھی اس کو شکار نہ کیا ہو ۔اسی طرح پرندہ ہوا میں ہو اس کو شکار نہ کیا ہو یا وہ قبضہ میں نہ ہو تو اس کی بیع کرنا فاسد ہے (٢)اس حدیث میں قبضہ سے پہلے مبیع کو بیچنا منع فرمایا ہے۔ سمعت ابن عباس یقول اما الذی نھی عنہ النبی ۖ فھوہ الطعام ان یباع حتی یقبض،قال ابن عباس ولا احسب کل شیء الا مثلہ(ب) (بخاری شریف، باب بیع الطعام قبل ان یقبض وبیع مالیس عندک ص ٢٨٦ نمبر ٢١٣٥ مسلم شریف ، باب بطلان بیع المبیع قبل القبض ص ٥ نمبر ٣٨٣٨١٥٢٥) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جو مبیع قبضہ میں نہ ہو اس کو بیچنا جائز نہیں ہے۔حدیث میں ہے ۔عن عبد اللہ بن مسعود قال قال رسول اللہ ۖ لاتشتروا السمک فی الماء فانہ غرر (ج) (سنن للبیھقی ، باب ماجاء فی النہی عن بیع السمک فی الماء ج خامس ص ٥٥٥، نمبر١٠٨٥٩) اس حدیث سے پانی میں مچھلی بیچنے سے منع فرمایا ہے ۔  
نوٹ  چونکہ مچھلی اور پرندہ مال ہیں اس لئے بیع فاسد ہوگی۔لیکن اگر اس پر قبضہ کرکے بعد میں مشتری کے حوالے کر دیا اور کوئی جھگڑا نہیں ہوا اور مشتری نے قبول کر لیا تو بیع پلٹ کر جائز ہو جائے گی ۔

حاشیہ  :  (پچھلے صفحہ سے آگے)بیچا تو حضورۖنے اس کو بلایا اور اس کو بیچا(الف) حضرت بریرہ حضرت عائشة کے پاس آئی ۔وہ مکاتبہ تھی۔فرمایا مجھے خرید لیں اور آزاد کردیں۔حضرت عائشہ نے فرمایا ہاں(ب) جس سے حضور نے روکا ہے وہ غلہ ہے کہ قبضہ کرنے سے پہلے بیچے۔حضرت عبد اللہ ابن عباس نے فرمایا میرا گمان ہے کہ ہر چیز کا حال ایسے ہی ہے (ج) آپۖ نے فرمایا مچھلی کو پانی میں مت خریدو اس لئے کہ یہ دھوکہ ہے۔

Flag Counter