Deobandi Books

شرح ثمیری شرح اردو قدوری جلد 2 - یونیکوڈ

450 - 457
]١٧٠٧[(٩) وکذلک اذا شرطا ما علی الماذیانات والسواقی]١٧٠٨[(١٠) واذا صحت المزارعة فالخارج بینھما علی الشرط]١٧٠٩[(١١) وان لم تخرج الارض شیئا

ت  قفزان  :  قفیز کی جمع ہے،  مسماة  :  متعین۔
]١٧٠٧[(٩) ایسے ہی اگر شرط لگائی جو پیدا ہو بڑی ندی پر اور چھوٹی نالیوں پر۔  
تشریح  یوں شرط لگائی کہ نہر کے کنارے کنارے جو غلہ پیدا ہوگا وہ زمین والے کا اور باقی غلوں میں دونوں شریک ہوںگے۔ یا چھوٹی نالیوں کے کنارے کنارے جو غلہ پیدا ہوگا وہ زمین والے کا اور باقی غلوں میں دونوں کے درمیان تقسیم ہوگا تو یہ جائز نہیں ہے۔  
وجہ  پہلے وجہ اور حدیث گزر چکی ہے۔مسلم شریف میں باضابطہ تصریح ہے۔قال سألت رافع بن خدیج عن کراء الارض بالذھب والورق ؟ فقال لا بأس بہ انما کان الناس یواجرون علی عہد رسول اللہ ۖ علی الماذیانات واقبال الجداول واشیاء من الزرع فیھلک ھذا ویسلم ھذا ویسلم ھذا ویھلک ھذا فلم یکن للناس کراء الا ھذا فلذلک زجر عنہ فاما شیء معلوم مضمون فلا بأس بہ ((الف) ( مسلم شریف ، باب کراء الارض بالذھب والورق ،ج ثانی ،ص١٢، نمبر ١٥٤٨) اس حدیث میں صراحت ہے کہ بڑی نہر کے کنارے کنارے کے غلے کو کسی ایک کے لئے خاص کرنا جائز نہیں ہے۔تمام غلے مشترک ہو نے چاہئے  لغت  ماذیانات  :  ماذیان کی جمع ہے،بڑی ندی،  سواقی  :  ساقیة کی جمع ہے،چھوٹی نالی،پانی پلانے کا راستہ۔
]١٧٠٨[(١٠)اور جب مزارعت صحیح ہو جائے تو پیداوار دونوں کے درمیان شرط کے مطابق ہوگی۔  
تشریح  اوپر کے تمام شرائط پائے جائیں اور مزارعت صحیح ہو جائے تو اب جن شرطوں پر مزارعت ہوئی تھی مثلا زمین والے کا ایک تہائی غلہ ہوگا اور بٹائی والے کا دو تہائی غلہ ہوگا تو انہیں شرائط کے مطابق دونوں میں غلہ تقسیم کیا جائے گا۔  
وجہ  حضورۖنے فرمایا  قال النبی ۖ المسلمون عند شروطھم (ب) (بخاری شریف ، باب اجر السمسرة ص ٣٠٣ نمبر ٢٢٧٤) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ مسلمانوں کو شرط کی رعایت کرنی چاہئے۔
]١٧٠٩[(١١)اور اگر زمین کوئی چیز پیدا نہ کرے تو کام کرنے والے کے لئے کچھ نہ ہوگا۔  
تشریح  بٹائی میں شرط طے ہوئی تھی کہ جو غلہ پیدا ہوگا اس میں سے کام کرنے والے کو چوتھائی یا تہائی ملے گا۔اور یہاں زمین سے کوئی پیداوار نہیں ہوئی اس لئے عامل کو کہاں سے دیںگے؟ اور جیب سے دینے کی شرط نہیں تھی۔تو جس طرح زمین والے کو کچھ نہیں ملا اسی طرح کام کرنے والے کو بھی کچھ نہیں ملے گا۔

حاشیہ  :  (الف) میں نے حضرت بن خدیج سے سونے اور چاندی کے بدلے زمین کرایہ پر لینے کے بارے میں پوچھا تو فرمایااس میں کوئی حرج کی بات نہیں ہے۔لوگ حضور کے زمانے میں اجرت پر رکھتے تھے اس شرط پر کہ نہر کے پاس کا غلہ ،نالیوں کے سامنے کا غلہ اور کچھ خاص کھیتی ایک کہ لئے ہو۔ پس کبھی ہلاک یہ ہو جاتا اور وہ محفوظ رہ جاتا یا وہ محفوظ رہ جاتا اور یہ ہلاک ہوجاتا ۔پس لوگوں کے لئے کرایہ نہ ہوتا۔مگر یہ اس لئے حضورۖ نے اس سے ڈانٹا ۔بہر حال کوئی معلوم چیز جو مضمون ہو اس میں کوئی حرج کی بات نہیں ہے(ب)آپۖ نے فرمایا مسلمان شرط کے پابند ہوں۔

Flag Counter