Deobandi Books

شرح ثمیری شرح اردو قدوری جلد 2 - یونیکوڈ

449 - 457
لواحد فھی باطلة]١٧٠٤[(٦) ولا تصح المزارعة الا علی مدة معلومة]١٧٠٥[(٧) وان یکون الخارج بینھما مشاعا]١٧٠٦[(٨) فان شرطا لاحدھما قفزانا مسماة فھی باطلة۔

ہوا اور نہ پیدا ہونے والے غلے کے بدلے اجرت پر لیا جا سکا۔ اس لئے بیل استعمال کرنے کی شرط مفت رہی۔اس لئے مزارعت کی یہ صورت فاسد ہوگی۔
]١٧٠٤[(٦)اور نہیں صحیح ہے مزارعت مگر مدت معلوم ہو۔  
تشریح  بٹائی پر کھیت لیا لیکن یہ واضح نہیں کیا کہ کتنے مہینوں کے لئے لیا ہے تو مزارعت فاسد ہوگی۔  
وجہ  کھیت والا چاہے گا کہ جلدی چھوڑ دو اور بٹائی والا چاہے گا کہ دیر کروں  جس سے جھگڑا ہوگا۔اس لئے مدت کا متعین ہونا ضروری ہے (٢) اس کے لئے واضح حدیث گزر چکی ہے۔عن ابن عباس قال قدم النبی ۖ المدینة وھم یسلفون فی الثمار السنة والسنتین فقال من سلف فی تمر فلیسلف فی کیل معلوم ووزن معلوم الی اجل معلوم (الف) (مسلم شریف ، باب السلم ص ٣١ نمبر ١٦٠٤) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ مدت معلوم ہونی چاہئے۔
]١٧٠٥[(٧)اور یہ کہ پیداوار دونوں کے درمیان مشترک ہو۔  
تشریح  جو کچھ غلہ پیدا ہو وہ زمین والے اور بٹائی والے کے درمیان مشترک ہو ۔ایسا نہ ہو کہ جو غلہ پیدا ہوا اس میں سے مثلا زمین والے کے لئے پہلے سو کیلو مخصوص کر لیا جائے باقی جو بچے اس میں سے دونوں حصہ کرے۔  
وجہ  کیونکہ مان لیا جائے کہ زمین سے ایک سو کیلو ہی پیدا ہوا تو وہ زمین والے کو مل جائے گا اور بٹائی والے کو کچھ بھی نہیں ملے گا۔اس کا کام مفت گیا اس لئے کسی ایک کے لئے مخصوص پیداوار نہ ہو بلکہ پورا غلہ مشترک ہو ۔چاہے چوتھائی پر ہو یا تہائی پر ہو(٢) حدیث میں بھی اس سے منع فرمایا ہے۔سمع رافع بن خدیج قال کنا اکثر اہل المدینة مزدرعاکنا نکری الارض بالناحیة منھا مسمی لسید الارض قال فمما یصاب ذلک وتسلم الارض ومما یصاب الارض ویسلم ذلک فنھینا فاما الذھب والورق فلم یکن یومئذ (ب) (بخاری شریف ، باب ٧،کتاب الحرث والمزارعة ص ٣١١ نمبر ٢٣٢٧ مسلم شریف ، باب کراء الارض بالذھب والورق ص ١٢ نمبر ١٥٤٨) اس حدئث سے معلوم ہوا کہ کوئی مخصوص کیلو یا مخصوص جگہ کو متعین کرنا جائز نہیں ہے۔ اس سے مزارعت فاسد ہو جائے گی۔
]١٧٠٦[(٨)پس اگر شرط کی دونوں نے ایک کے لئے متعین قفیز تو وہ باطل ہے۔  
تشریح  جتنا غلہ نکلے اس میں سے مثلا سو کیلو زمین والے کے لئے ہوگا پھر باقی غلہ تقسیم ہوگا تو یہ جائز نہیں ہے۔دلیل اوپر حدیث گزر چکی۔ 

حاشیہ  :  (الف) آپۖ مدینہ طیبہ تشریف لائے اس حال میں کہ لوگ پھلوں میں اک سال اور دو سال کے لئے تجارت کرتے تھے۔پس آپۖ نے فرمایا جو کھجوریں تجارت کرے تو کیل معلوم ہو ،وزن معلوم ہو اور مدت معلوم ہو(ب) رافع بن خدیج فرماتے ہیں کہ ہم اکثر اہل مدینہ کھیتی کرتے تھے ۔ہم زمین کرایہ پر دیتے،اس میں سے ایک کنارہ زمین والے کے لئے مختص ہوتا ۔فرماتے ہیں کہ ایسا بھی ہوتا کہ اس کو مرض لگ جاتا اور باقی زمین محفوظ رہتی۔اور ایسا بھی ہوتا کہ زمین کو مرض لگ جاتا اور وہ کنارہ محفوظ رہ جاتا ۔اس لئے ہم کو روک دیا گیا۔بہر حال سونے اور چاندی کے بدلے کرایہ پر لینا تو کوئی حرج کی بات نہیں ہے۔

Flag Counter