Deobandi Books

شرح ثمیری شرح اردو قدوری جلد 2 - یونیکوڈ

45 - 457
علی بائعہ الاول وان قبلہ بغیر قضاء القاضی فلیس لہ ان یردہ علی بائعہ الاول]٨٨١[ (١١) ومن اشتری عبدا و شرط البائع البراء ة من کل عیب فلیس لہ ان یردہ بعیب وان 

تشریح  مثلا زید مشتری نے غلام خریدا،پھر اس کو دوسرے کے پاس بیچا ،پھر مشتری ثانی خالد نے اسی عیب کے ماتحت جو پہلے بائع کے پاس تھا مشتری اول زید کو واپس کر دیا،تو زید بائع اول رحیم کے پاس واپس کر سکتا ہے یا نہیں؟ اس میں تفصیل یہ ہے کہ زید نے عیب کا انکار کیا پھر قاضی نے عیب کے ماتحت غلام کو واپس کرنے کا فیصلہ دیا جس سے مجبور ہو کر زید نے غلام کو قبول کیا تو اس صورت میں زید کو حق ہے کہ اس عیب کی وجہ سے غلام کو بائع اول رحیم کی طرف واپس کردے۔  
وجہ  قاضی نے جب غلام واپس کرنے کا فیصلہ دیا تو زید اور خالد کے درمیان کی بیع بالکل ختم ہو گئی گویا کہ کوئی بیع ہوئی ہی نہیں۔اور مشتری نے گویاکہ کوئی ایسا کام نہیں کیا جس کی وجہ سے مبیع بائع اول رحیم کی طرف لوٹانا متعذرہو۔قاعدہ یہ ہے کہ مشتری کوئی ایسا کام کرے جس سے مبیع بائع کی طرف لوٹانا متعذر ہو جائے تو پھر مشتری عیب کی وجہ سے بائع کی طرف نہیں لوٹا سکتا۔یہاں تو قاضی کے فیصلہ کی وجہ سے دوسری بیع نسیا منسیا ہو گئی ۔  اس لئے مشتری نے گویا کہ کوئی ایسا کام کیا ہی نہیں جس کی وجہ سے مبیع کا واپس ہونا متعذر ہو۔  اس لئے مشتری زید بائع اول رحیم کی طرف مبیع واپس کر دے گا۔
اور قاضی کے فیصلہ کے بغیر مشتری زید نے خالد سے مبیع واپس لے لی تو زید اور خالد کی درمیان کی بیع بالکل ختم نہیں ہوئی ۔اس کے اثرات باقی ہیں۔ اور وہ یہ ہے کہ زید کے بیچنے کی وجہ سے مبیع کو بائع اول رحیم کی طرف واپس کرنا متعذر ہو گیا ۔اور قاعدہ گزر گیا کہ کہ مشتری کے عمل سے مبیع کو بائع کی طرف واپس کرنا متعذر ہو جائے تو مشتری مبیع کو بائع کی طرف واپس نہیں کر سکتا ۔اور اس صورت میں یہی  ہوا کہ مشتری زید کے بیچنے کی وجہ سے مبیع کو بائع اول رحیم کی طرف واپس کرنا متعذر ہو گیا۔اور قاضی کا فیصلہ بھی نہیں ہے کہ بیع نسیا منسیا ہو جائے ۔اس لئے زید مبیع کو بائع اول رحیم کی طرف واپس نہیں کر سکتا  
نوٹ  اگر عیب دیکھنے کے بعد بیچا ہو تو مبیع واپس نہیں کر سکتا ۔کیونکہ عیب دیکھنے کے بعد بیچنا اس بات پر دلیل ہے کہ وہ اس عیب پر راضی ہے۔اس کی دلیل یہ اثر ہے  عن عامر فی الرجل یشتری السلعة فیری بھا العیب ثم یعرضھا علی البیع لیس لہ ان یردھا (الف) (مصنف ابن ابی شیبة ٥٧٤ فی الرجل یشتری السلعة فیجد بھا عیبا ج خامس ص ١١،نمبر ٢٣٢٣١) اس اثر میں ہے کہ عیب دیکھنے کے بعد سامان کو بیچنے کے لئے پیش کیا تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ اس عیب سے راضی ہے۔اس لئے اب اس کو بائع کی طرف واپس نہیں کر سکتا۔  
اصول  اگر مشتری کے عمل سے مبیع کو واپس کرنا متعذر ہو گیا تو مبیع کو بائع کی طرف واپس نہیں کر سکتا۔
]٨٨١[(١١)  کسی نے غلام خریدا اور بائع نے ہر عیب سے بری ہونے کی شرط لگائی تو مشتری کے لئے جائز نہیں ہے کہ عیب کے ماتحت اس کو واپس کرے۔چاہے تمام عیوب کا نام نہ لیا ہو اور نہ ان کو گنوایاہو۔  
تشریح  بائع نے مبیع بیچی اور کہا کہ مبیع دیکھ لیںاور خرید لیں۔میں تمام عیوب سے بری ہوں۔پھر واپس نہیں کروںگا۔تو چاہے ہر ہر عیب کو نہ 

حاشیہ  :  (الف) حضرت عامر کا اثر ہے کہ ایک آدمی نے سامان خریدا ،پس اس میں عیب دیکھا پھر اس کو بیع پر پیش کیا تو اس کے لئے مبیع کو لوٹانے کا حق نہیں ہے ۔

Flag Counter